اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ہواؤں کا رُخ اتنی جلدی بدل جائے گا کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا، مارچ 2022ء کے جلسے میں لہرایا گیا خط اور توشہ خانہ سے لی گئی گھڑیاں اتنی مشکل گھڑی لے آئیں گی کہ ایک بڑے سیاسی لیڈر کو سیاست سے نا اہل ہونے کیساتھ ساتھ 14 برسوں کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑے گا۔
اگرچہ پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں، منظر نامہ بدلتے دیر نہیں لگتی مگر موجودہ صورتحال میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کیلئے یہ مشکل ترین وقت ہے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، ایسا لگتا ہے جیسے 2018 ء کا پروگرام نشر ِمکرر چل رہا ہو، صرف کردار مختلف ہیں، 2018ء کے ولن آج کے ہیرو ہیں جبکہ اُس وقت کے فیورٹ آج زیرِ عتاب ہیں۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 2018ء میں جب میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں سزا سنائی تو بانی پی ٹی آئی اور ان کے ووٹرز نے مٹھائیاں تقسیم کیں، میاں نواز شریف اُس وقت مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے تھے، آج انہی جج صاحب نے بانی پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ کو 14، 14 سال قید کی سزا سنائی ہے، اس مرتبہ بھی الیکشن سے چند روز قبل سزائیں ہو رہی ہیں اور ان کی ایسی توجیہات پیش کی جا رہی ہیں جیسے اب ہی تو ملک میں قانون کی عملداری شروع ہوئی ہے، اس سے قبل جو ہوا وہ ظلم کے سوا کچھ نہ تھا۔
2018ء میں تالیاں بجانے والے آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں مگر حیرانی اس بات پر ہے کہ آج تالیاں بجانے والے اس وقت کے منظر نامے کو بھول چکے ہیں، یہ ایک ایسا چکر ہے جس میں کوئی بھی کسی بھی وقت آ سکتا ہے، 2018ء میں لگتا تھا کہ ایوان فیلڈ اپارٹمنٹ اور العزیزیہ ملز سے بڑا اس ملک میں کوئی مسئلہ ہی نہیں، جلسوں، پریس کانفرنسز اور ٹی وی ٹاک شوز میں ایسا بیانیہ بنایا گیا کہ اگر ایون فیلڈ اپارٹمنٹ اور العزیزیہ سٹیل ملز نہ بنتی تو اس ملک کے یہ حالات نہ ہوتے، قوم کو بتایا گیا کہ اب ہی تو کرپشن پر ہاتھ پڑا ہے، اب اس ملک میں کوئی کرپشن کرنے کی جسارت نہیں کریگا۔
پانچ سے چھ برس بعد کل کے مجرم آج کے صادق اور امین بن چکے ہیں اور گزشتہ حکومت کے صادق اور امین کہلوانے والے آج کے کرپٹ ہیں، 2017 ء میں نا اہلی اور 2018ء میں فوجداری کیسز میں سزاؤں کے بعد کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ میاں نواز شریف اگلے عام انتخابات میں نہ صرف قومی دھارے میں واپس ہوں گے بلکہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم کے مضبوط ترین امیدوار کے طور پر بھی سامنے آئیں گے؟
بڑی لیڈر شپ سے ہٹ کر اگر کچھ دیگر کیسز کی جانب دیکھیں تو صورتحال مختلف نظر نہیں آتی، 2018ء کے انتخابات سے چند روز قبل حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور ان کے مد مقابل شیخ رشید کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا، ساڑھے پانچ برس بعد حنیف عباسی نہ صرف باعزت بری ہو چکے ہیں بلکہ ان کے مد مقابل شیخ رشید اڈیالہ جیل کے اسیر ہیں اور آج حنیف عباسی آزادانہ انتخابی مہم چلا رہے ہیں، دونوں ادوار میں ایک چیز بہت زیادہ مشترک ہے کہ کیسز انتہائی سرعت کے ساتھ چلائے گئے اور انتخابات سے قبل فیصلے سنائے گئے۔
میاں نوازشریف نے اپنی صاحبزادی کے ساتھ 2018ء کے انتخابات کا دن جیل میں گزارا، 2024ء کے عام انتخابات کے دوران سابق وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ساتھ اڈیالہ جیل میں قید ہیں، شاید مریم نواز نے اسی دن کیلئے کہا تھا کہ انتخابات تب ہوں گے جب ترازو کے پلڑے برابر ہوں گے، موجودہ عام انتخابات کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو 2018ء میں ہونے والے سینیٹ الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) سے شیر کا نشان چھین لیا گیا تھا اور اس کے امیدواروں نے آزاد حیثیت میں سینیٹ الیکشن میں حصہ لیا۔
2024ء کی تحریک انصاف دراصل 2018ء کی مسلم لیگ (ن) بن چکی ہے، اگرچہ میاں نواز شریف ، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف بھی توشہ خانہ کیسز زیر التوا ہیں مگر(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما پریس کانفرنسز میں بتاتے نہیں تھک رہے کہ توشہ خانہ سے تحائف لیتے ہوئے جو جرم بانی پی ٹی آئی سے سرزد ہوا اس سے زیادہ تو قانون کی خلاف ورزی ہو ہی نہیں سکتی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق بانی پی ٹی آئی کا جرم اور مبینہ متنازع ٹرائل اپنی جگہ مگر توشہ خانہ کیس قانونی سے زیادہ ایک اخلاقی معاملہ بھی ہے، بانی پی ٹی آئی نے ہمیشہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے خلاف جدوجہد کا بیانیہ بنایا مگر ان کا اور ان کی اہلیہ کا جرم یہ ہے کہ دوست ممالک کے حکمرانوں سے ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع نہیں کرائے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں انتہائی سستے داموں خریدا، پھر ان قیمتی تحفوں کو مہنگے داموں فروخت کر دیا۔
جہاں سائفر کیس میں تیز ترین ٹرائل کا شکوہ کیا جا رہا ہے وہیں بانی پی ٹی آئی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ایک خفیہ دستاویز کو غیر مجاز افراد کے ساتھ شیئر نہیں کیا؟ کیا سائفر کی کاپی جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ایک خفیہ دستاویز ہے، سابق وزیر اعظم سے گم نہیں ہوئی؟ جو انہوں نے تسلیم بھی کیا، یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ سٹیٹ سیکرٹ لیک کرنے کی سزا 10 سال اور توشہ خانہ تحائف میں کرپشن کی سزا 14 سال دی گئی، ابھی سابق وزیر اعظم کیخلاف 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس، 9 مئی واقعات اور دورانِ عدت نکاح سے متعلق کیسز کے فیصلے آنا باقی ہیں۔
2018ء اور 2024ء کے دوران ہونے والے سیاسی، قانونی اور انتظامی معاملات میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں مگر 8 فروری کو معلوم ہوگا کہ 2018ء میں (ن) لیگ کیساتھ ہونے والے سلوک کے بعد اس کا ووٹر دبک کر گھر بیٹھ گیا، کیا پی ٹی آئی کا ووٹر بھی ایسا ہی کرے گا؟ اگر بانی پی ٹی آئی کو سزا سنائے جانے کے بعد لوگ احتجاج کیلئے باہر نہیں نکلے تو کیا 8 فروری کو بھی اس جماعت کا ووٹر گھر میں بیٹھا رہے گا؟
پاکستان تحریک انصاف سائفر اور توشہ خانہ کیسز کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر چکی ہے جس میں کیس کے میرٹس سے زیادہ سائفر کیس میں ٹرائل کے طریقہ کار جبکہ توشہ خانہ کیس میں حقِ دفاع ختم ہونے کو گراؤنڈ بنایا جائے گا، ان کیسز کا مستقبل بھی شاید وہی ہو جو ماضی کے بڑے سیاسی کیسز کا ہوا مگر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا مشکل وقت ختم ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔