دودی پت۔۔۔۔ حسن فطرت کی مثال

Published On 08 June,2024 03:48 pm

لاہور: (قیصر عباس صابر) کسی خوبصورت وادی سے گزرتے ہوئے ہم بہت ہی دلکش منظر اس لئے نظرانداز کر دیتے ہیں کہ وہ برلب سڑک نہیں ہوتا اور دلفریب مناظر کبھی راہوں میں پڑے نہیں ملتے، اطراف میں پھیلے حسن سے غافل ہم بس آگے ہی آگے چلتے جاتے ہیں، راہ گزر سے ذرا سا ہٹ کر جو منظر سونے کی انگوٹھی میں نیلم کی طرح جڑا ہے، وہ دودی پت جھیل ہے۔

بابو سر ٹاپ برف کے پتھر ہو چکے وجود کی وجہ سے بند تھا اور ہم روز ایک تازہ امید کے ساتھ جھیل لولوسر تک آتے تھے اور واپس لوٹ جاتے تھے، بیسل پر بنے مون ریسٹورنٹ نے جی کھول کر باسی کھانے کھلائے کیونکہ سیاحوں کے پاس دوسرا کوئی آپشن ہی نہ تھا، تیسرے روز ہم نے ایک ایسی جھیل کو پھر دیکھنے کا فیصلہ کیا جسے دیکھے ہوئے عرصہ بیت گیا تھا۔

کہیں کہیں یادوں کے جھروکوں سے دودی پت جھیل جھانکتی تھی تو گرم موسموں میں بھی وجود کپکپاہٹ سے دو چار ہو جاتا تھا، راشد ڈوگر نے بلندی سے گھبرا کر بیسل میں پڑے رہنے کی بہت کوشش کی مگر ہم اسے ساتھ لے گئے، فوزیہ، عون اور کنول ہمیشہ سے یہاں تک جانا چاہتے تھے مگر ہمیں شمال کا بلاوہ کھینچ لیتا تھا۔

جیپ جلکھڈ سے ملی اور گاڑیاں وہیں پارک کر دی گئیں، شدید سردی سے بچاؤ کے سارے انتظامات مکمل کر لئے تھے، ضروری نہیں سبھی لوگ جیپ جلکھڈ سے لیں، وہ اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔

ناران سے بابو سر ٹاپ تک جانے والے، یا پھر گلگت بلتستان کے عشق میں مبتلا سیاح دودی پت جھیل کو اس لئے نظرانداز کر جاتے ہیں کہ وہ ابھی نیلام نہیں ہوئی، نیلام نہ ہونے والی جھیلوں کی تشہیر بھی نہیں کی جاتی، اس لئے وہ آنکھ سے اوجھل رہتی ہے، وادیٔ کاغان کی یہی جھیل اپنی فطری حالت میں محفوظ ہے۔

سطح سمندر سے بارہ ہزار پانچ سو اور کہیں پر بارہ ہزار آٹھ سو فٹ بلند یہ جھیل برف کے پانی سے بنی شفاف جھیل ہے جس کا راستہ جل کھڈ سے اوپر اٹھتا ہے اور چار سے چھ گھنٹے کی پیدل مسافت کے دوران راستے میں ندیاں، آبشاریں اور جھرنے سفر کو خوش گوار بناتے ہیں، ناران سے چالیس کلومیٹر دور دریائے کنہار کے کنارے چھوٹی سی آبادی جل کھڈ ہے اور یہیں سے ایک رابطہ راہداری نوری ٹاپ سے گزر کر کشمیر میں دریائے نیلم کنارے آباد بستی شاردہ تک جاتی ہے۔

جل کھڈ اور کشمیر کے درمیان یہی ایک پیدل راستہ ہے جو نوری ٹاپ سے ہو کر گزرتا ہے، اسی راستہ کے کنارے دودی پت کا نیلم وادی کی انگوٹھی کو دلفریب بناتا ہے، جلکھڈ سے پیدل اور کٹی داس سے فور بائی فور گاڑی پر دودی پت جھیل تک جایا جا سکتا ہے، راستے میں کیمپنگ کی سہولت ملاں کی بستی میں دستیاب ہے اور وادیٔ کاغان کی شاندار ٹراؤٹ فش بھی یہیں سے ملتی ہے، منزل تک پہنچنے کیلئے چھوٹی بڑی ندیاں عبور کرنا پڑتی ہیں، طغیانی والی ندیاں ڈولی میں بیٹھ کر پار کی جاتی ہیں۔

جھیل دودی پت گول ہے؟ بیضوی ہے یا لمبوتری، اس کا فیصلہ ہر موسم میں مختلف ہوتا ہے، برف ہو جائے تو چاندی کا گولا لگتی ہے، برف ٹپکنے لگے تو جھرنا لگتی ہے، جون میں گول اور جولائی میں بیضوی ہو جاتی ہے، اگست کے آخر میں ایک بار پھر سکٹر کر برف کے گولے میں ڈھل جاتی ہے۔

کسی بھی جھیل کا حسن وہاں تک پہنچنے میں پنہاں ہوتا ہے اور یہ جھیل اپنے چٹ پٹے راستے کے حوالے سے پاکستان کی اے کلاس جھیلوں کی فہرست میں شامل ہے، دریائے کنہار سے دودی پت تک ندیاں، جھرنے، سبزہ اور پھول ساتھ ساتھ چلتے ہیں، آپ اپنا سفر بیسل سے شروع کریں یا کٹی داس سے، یہ سفر رائیگاں نہیں جاتا، زیادہ تھکن ہو جائے تو خیمہ بستیاں بھی حوصلہ دیتی ہیں، احساس تحفظ اس لئے ہوتا ہے کہ یہاں کبھی واردات نہیں ہوئی، سیاحت سے روزی کشید کرتے لوگ واردات نہیں ہونے دیتے، کیونکہ اپنی ہی چھت میں بھلا کون شگاف ڈالتا ہے۔

وادیٔ کاغان کی مشہور جھیل سیف الملوک اب غلاظت میں اوّل ہے تو اس کا کفارہ جھیل دودی پت کی فطری حیثیت میں موجود ہونا بھی ہو سکتا ہے، کمرشل زمانے میں دودی پت جھیل اپنی اصل شکل میں موجود ہے، یہاں پہنچ کر احساس ہوا کہ بابو سر بند نہ ہوتا تو ہم اس جہان حیرت سے نا آشنا رہتے، ملاں کی بستی میں کھائی گئی ٹراؤٹ مچھلی کا ذائقہ چکھے بغیر اس وادی سے یا دنیا سے گزر جانا کتنا بے رنگ ہوتا۔

جھیل کنارے بیٹھ کر خودکلامی کا ذوق اس شاندار تخلیق کے خالق کی ثنا خوانی کی طرف لے جاتا ہے، اس ملاوٹ زدہ ماحول میں ایک ایسی جھیل جو سراسر قدرتی ہے، ناران سے بابوسر جانے والے اپنے اطراف میں کیسے کیسے مناظر نظرانداز کر جاتے ہیں، اگر وہ دودی پت کو دیکھ لیں تو انہیں پہلے کے سارے سفر رائیگاں لگیں۔

قیصر عباس صابر کا شمار اردو ادب کے معتبر تخلیق کاروں میں ہوتا ہے، سفر ناموں، ناول اور تجزیوں پر مشتمل ان کی 20 کتب شائع ہو چکی ہیں۔