لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا جلسہ رکوانے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی۔
لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت سے متعلق عالیہ حمزہ و دیگر کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس فاروق حیدر کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری عدالت پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس میں کہا کہ کمرہ عدالت میں تھوڑی جگہ بنائیں تا کہ فریقین کی حاضری لگا سکیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نہیں آئے؟ جس پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اسلام آباد ہیں۔
سرکاری وکیل نے پی ٹی آئی کی جلسے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ عالیہ حمزہ نے جلسے کی اجازت کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع ہی نہیں کیا، عمر ایوب اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی نے بھی جلسے کی اجازت کے لیے درخواست دی۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حساس اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں جلسے کی اجازت نہیں دی، پی ٹی آئی کے حالیہ جلسوں میں کی گئی تقریریں ریکارڈ کا حصہ ہیں، جلسے میں عدلیہ مخالف ،ریاست مخالف تقریریں ہوئیں، اسلام آباد کے جلسے میں صحافیوں کے خلاف نامناسب زبان استعمال ہوئی، حماد اظہر جو مختلف مقدمات کا اشتہاری ہے اس نے تقریر کی، علی امین گنڈا پور نے بھی نامناسب الفاظ کا استعمال کیا۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیے کیا عالیہ حمزہ پارٹی کی کوئی عہدے دار ہیں؟اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عالیہ حمزہ پی ٹی آئی کی سی ای سی کی رکن ہیں۔
جسٹس طارق ندیم نے ریمارکس میں کہا کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ عالیہ حمزہ نے جلسے کے لیے کوئی درخواست نہیں دی، اس پر جسٹس فاروق حیدر نے کہا کہ قانون کے مطابق درخواست دینا ضروری ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ڈپٹی کمشنر کہاں ہیں؟ آگے آئیے، جسٹس فاروق حیدر نے ڈپٹی کمشنر سے استفسار کیا کہ عالیہ حمزہ نے جلسے کے لیے کوئی درخواست دی ہے؟ جس پر ڈی سی نے بتایا کہ عالیہ حمزہ نے جلسے کےلیے کوئی درخواست نہیں دی۔
اس پر جسٹس فاروق حیدر نے پی ٹی آئی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سیکرٹری جنرل نے تو 22 ستمبر کو جلسے کی اجازت مانگی ہے، کہیں آپ نے 21 ستمبر کو جلسے کی اجازت مانگی ہے۔
عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ عالیہ حمزہ ہے کہاں؟اس پر وکیل اشفاق چودھری نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس وقت بھی ہاؤس اریسٹ کی کیفیت میں ہیں۔
جسٹس فاروق حیدر نے پی ٹی آئی کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ ابھی جلسے کی اجازت کے لیے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں، ہم پندرہ منٹ میں دوبارہ آئیں گے آپ ہمارے سامنے درخواست دیں، ڈپٹی کمشنر آج ہی درخواست پر فیصلہ کرینگے۔
اس کے بعد عدالت عالیہ نے جلسے کی اجازت سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں کچھ دیر کیلئے وقفہ کردیا۔
سماعت دوبارہ شروع تو جسٹس طارق ندیم نے چیف سیکرٹری کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیے یہ ملک ہے تو سب ہیں، آج جو اقتدار میں ہیں ماضی میں اپوزیشن میں تھے، آپ اس وقت بھی سروس کررہے تھے آج بھی سروس کررہے ہیں، ہر پندرہ بیس دن بعد اس طرح کی کوئی رٹ دائر ہوجاتی ہے، کیا یہ بہتر نہ ہوگا ہم ہر ضلع میں جلسے کےلیے ایک جگہ مختص کردیں۔
عدالت نے چیف سیکرٹری سے مکالمے میں کہا کہ لاہور بڑا شہر ہے یہاں جلسے کےلیے دو تین جگہیں مختص کردیں ، یہاں صورتحال یہ ہے کہ آگے جلسہ ہورہا ہوتا ہے پیچھے جنازے رکے ہوتے ہیں، حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں، کوئی ایسا کام کر جائیں جس سے آپ کو لوگ یاد رکھیں۔
جسٹس طارق ندیم نے ریمارکس میں کہا کہ آج یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جلسے کی اجازت نہیں مل رہی کل وہ کہہ رہے تھے، دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی ہم آج بھی یہاں پھنسے ہیں، بولنے کی آزادی نہیں ہے، جلسے کی اجازت نہیں ہے۔
جسٹس فاروق حیدر نے آئی جی پنجاب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب ہم آپ سے یہ توقع نہیں کرتے کہ لوگوں کو غیر قانونی ہراساں کیا جائے، اس پر آئی جی نے جواب دیا کہ ہماری طرف سے کوئی ہراسمنٹ نہیں کی جارہی۔
پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اس پر کہا کہ آئی جی صاحب جھوٹ مت بولئے، میرے گھر کے باہر ایک ہفتے سے پولیس کھڑی ہے۔
جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس میں کہا کہ یہ ریکارڈ پر ہے کہ درخواست گزار عالیہ حمزہ نے جلسے کی اجازت کےلیے ڈپٹی کمشنر کو کوئی درخواست نہیں دی، درخواست گزار کے وکیل نے عدالتی حکم پر ابھی ہاتھ سے لکھی درخواست ڈپٹی کمشنر کو دی۔
بعدازاں عدالت نے ڈپٹی کمشنر کو حکم دیا کہ شام پانچ بجے تک جلسے کی اجازت سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ کریں جبکہ عدالت نے جلسہ روکنے سے متعلق درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردیا۔