لاہور: (محمد علی) دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی تغیرات کی لپیٹ میں ہے اور دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی پر قابو پانا بھی بہت ضروری ہو چکا ہے۔
ہر سال عالمی سطح پر 30 کروڑ ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے اور اس میں سے نصف ایک ہی بار استعمال کیا جاتا ہے، پلاسٹک کے استعمال میں اضافے کی اس لہر کو روکنے کی اشد ضرورت ہے، بعض ممالک نے پلاسٹک کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے فیصلہ کن اقدامات کئے ہیں جیسا کہ بنگلہ دیش، فرانس اور روانڈا، مگر پاکستان اس حوالے سے ابھی قابل ذکر پیش رفت حاصل نہیں کر سکا۔
پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پلاسٹک کے استعمال کے چیلنج سے نبردآزما ہے، سائنسی میگزین ’’نیچر‘‘میں شائع ہونے والی برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز کی ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے آٹھ ممالک میں شامل ہے، کراچی دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے چار شہروں میں شامل ہے۔
ورلڈ بینک کی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ سے بحیرہ عرب میں 40 فیصد کچرا شامل ہوتا ہے جس کا تین چوتھائی حصہ سودا سلف کیلئے استعمال ہونے والی پلاسٹک کے کچرے، جوس کے ڈبوں، بچوں کے ڈائیپرز، فیس ماسک، سرنجوں اور کئی تہوں والی پیکیجنگ میں استعمال ہونے والی باریک پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے۔
پلاسٹک کے اس کچرے کو گھروں کے کوڑنے میں ڈال دیا جاتا ہے، اسے پھینکنا آسان مگر اس کے ماحولیاتی نقصانات سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے، دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال 1950 کے وسط میں عام ہوا اور اس نے زندگی کو تبدیل کر دیا کیوں کہ یہ ہلکا، سستا اور آسانی سے قابل استعمال سمجھا جاتا ہے اور چیزیں لانے لے جانے کیلئے اس کا استعمال بے حد بڑھ گیا۔
پلاسٹک کی بے تحاشا تیاری اور استعمال کی وجہ سے اس کا جو کچرا بنا اسے تلف کرنے کے بندو بست پر اس پیمانے پر کام نہیں کیا گیا، پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کی فوری ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی پائیداری کی کوششوں کو کامیاب بنایا جا سکے، بائیو ڈیگریڈایبل متبادل کے استعمال، ری سائیکلنگ کے اقدامات اور ماحولیاتی آگاہی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، حکومتی سطح پر جامع پالیسی فریم ورک کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پایا جا سکے اور پاکستان کو ایک صاف اور صحت مند ماحول فراہم کیا جا سکے، ماحولیات اور صحت کے ماہرین پلاسٹک کے پھیلاؤ کے ماحولیات اور صحت کیلئے خطرات اور اس کے انسانی اور آبی حیات حیات پر مضر اثرات بارے آگاہ کرتے رہتے ہیں، اس زمانے میں ہم اپنی زندگی میں سے پلاسٹک کے استعمال کو شاید مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے تاہم اس کے استعمال کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح ہماری بطور شہری ایک اہم ترین ذمہ داری پلاسٹک کو صحیح طرح سے ٹھکانے لگانا بھی ہے، پلاسٹک کو گھر کے دیگر کچرے میں ڈال کر پھینکنا ماحول کیلئے شدید خطرناک ہے، پلاسٹک کو ٹھکانے لگانے کیلئے مناسب اقدامات ضروری ہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو پلاسٹک کا استعمال کم کرنے اور صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بارے آگاہی فراہم کرے۔
محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے ہیں۔