پلاسٹک زدہ پرندے

Published On 27 May,2025 11:22 am

لاہور: (محمد علی) دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے اور اس کے سب سے ہولناک اثرات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، ان جانوروں پر جو ہماری پیدا کردہ آلودگی کا شکار ہوتے ہیں۔

حال ہی میں سامنے آنے والی چند تصاویر نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، جن میں ایسے پرندے دکھائے گئے ہیں جن کے جسم پلاسٹک سے اس قدر بھرے ہوئے ہیں کہ اُن کے اندر سے ’’چرچرانے‘‘ اور ’’کڑکنے‘‘ کی آوازیں آتی ہیں۔

یہ وہ آواز نہیں جو عام طور پر پرندوں سے منسوب کی جاتی ہے، لیکن ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ’’فلیش فُٹڈ شیئرواٹرز‘‘ (Flash Footed Sharewaters) کی ایک پوری کالونی ایسی ’’کڑکنے‘‘ اور ’’چرچرانے‘‘ کی آوازیں نکالتی ہے کیونکہ انہوں نے بہت زیادہ مقدار میں پلاسٹک نگل لیا ہے۔

آسٹریلیا کے مشرقی ساحل سے دور ایک چھوٹے آتش فشانی جزیرے، لارڈ ہاؤ پر تقریباً 44 ہزار شیئر واٹرز جنہیں ’’مٹن برڈز‘‘ بھی کہا جاتا ہے، موجود ہیں۔ جب یہ پرندے بچے دیتے ہیں تو اُن کے چوزے 90 دن تک اپنے بلوں میں رہتے ہیں اور انہیں والدین کی طرف سے مچھلی اور اسکویڈ (سمندری جانور) پر مشتمل خوراک ملنی چاہیے، لیکن ماں باپ غلطی سے انہیں پلاسٹک پر مشتمل خوراک کھلا رہے ہیں، جن میں غباروں کے کلپ، لیگو (LEGO) کے ٹکڑے، قلم کے ڈھکن، بوتلوں کے ڈھکن اور کھلونا کار کے پہیے شامل ہیں۔

سائنس دانوں نے ایک بار ایک 80 دن کے سمندری پرندے کے بچے کے پیٹ میں 778 پلاسٹک کے ٹکڑے دریافت کئے جو ایک ریکارڈ ہے، اب ان کا کہنا ہے کہ ہر ایک پرندے کے معدے میں کم از کم 50 یا اس سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں، ڈاکٹر ایلکس بانڈ، جو نیچرل ہسٹری میوزیم میں پرندوں کے سینئر کیوریٹر ہیں، 2009ء سے جزیرے کے پرندوں کو درپیش خطرات کی دستاویزی تحقیق کر رہے ہیں۔

پلاسٹک: خاموش قاتل
پلاسٹک کی آلودگی ایک خاموش مگر تباہ کن عفریت ہے، ہر سال لاکھوں ٹن پلاسٹک سمندروں، جھیلوں، ندیوں اور دیگر قدرتی مقامات پر پھینکا جاتا ہے، جہاں یہ سینکڑوں سال تک گلتا سڑتا نہیں، یہی پلاسٹک پرندوں، مچھلیوں، کچھوؤں اور دیگر جانداروں کے جسم میں داخل ہو کر ان کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔

پرندے خاص طور پر اس خطرے کا شکار ہیں، وہ چمکدار رنگوں یا خوراک سے مشابہ اشیاء کو کھانے کی کوشش کرتے ہیں، جو اکثر پلاسٹک ہوتی ہیں، پلاسٹک ان کے معدے میں جمع ہو جاتی ہے، جس سے ان کی خوراک ہضم کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ غذائی ضرورت پورا نہ ہونے سے مر جاتے ہیں۔

دل دہلا دینے والی تصاویر
حال ہی میں آسٹریلیا اور دیگر ساحلی علاقوں سے سامنے آنے والی تصاویر میں مردہ پرندوں کے جسموں کو کاٹ کر دیکھا گیا، تو ان کے معدوں میں پلاسٹک کی بوتلوں کے ڈھکن، پیکنگ میٹریل، لائٹرز اور دیگر چھوٹی اشیاء کی بھاری مقدار پائی گئی، ماہرین کے مطابق کچھ پرندوں کے جسم اتنے پلاسٹک سے بھرے ہوتے ہیں کہ انہیں ہلانے سے ’’چرچراہٹ‘‘ کی آواز آتی ہے، یہ ایک ایسا منظر جو ہر حساس دل کو لرزا دیتا ہے۔

ماہرین زندہ پرندوں کے معدے کو صاف کرنے کیلئے ان کے جسم میں نرمی سے سمندری پانی پمپ کرتے ہیں، جس سے وہ قے کرتے ہیں اور وہ مواد ایک بالٹی میں جمع ہو جاتا ہے، جو کچھ بھی انہوں نے نگل رکھا ہوتا ہے، جیسے پلاسٹک، وہ سب قے کے ساتھ واپس آ جاتا ہے۔

ڈاکٹر بانڈ کے مطابق یہ وہ چوزے ہیں جنہیں ان کے والدین نے غلطی سے یہ سارا پلاسٹک کھلا دیا، یہ چوزے ابھی گھونسلے سے اڑنے کے قابل بھی نہیں ہوئے، لیکن اس وقت تک ان کے جسموں میں کوڑا کرکٹ کا یہ ڈھیر جمع ہو چکا ہوتا ہے، ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بعد میں خود سے آسٹریلیا سے جاپان تک کا سفر کریں گے،مگر اتنی مقدار میں پلاسٹک اُن کے جسموں میں ہو تو ان میں سے کئی کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بعض اوقات جب وہ ان پرندوں کو ہاتھ میں لیتے ہیں، تو ’’چرچرانے‘‘ کی آواز سنائی دیتی ہے اور وہ یہ آواز محسوس بھی کر سکتے ہیں، ماضی میں پرندوں پر کی گئی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جن پرندوں کے معدے میں سب سے زیادہ پلاسٹک پایا گیا، اُن کے جسمانی ٹشوز میں زہریلے مادوں کی مقدار بھی سب سے زیادہ تھی۔

انسانیت کیلئے لمحہ فکریہ
یہ مناظر صرف جنگلی حیات کی تباہی کی کہانی نہیں سناتے، بلکہ یہ انسانوں کیلئے بھی ایک انتباہ ہیں، یہی پلاسٹک بالآخر ہماری خوراک، پانی اور فضا میں شامل ہو کر ہمارے جسموں میں داخل ہو رہا ہے، مائیکرو پلاسٹک آج ہمارے جسموں، یہاں تک کہ نوزائیدہ بچوں کے خون میں بھی پایا جا رہا ہے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
مسئلہ بڑا ہے، مگر حل ناممکن نہیں، ہمیں درج ذیل اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

پلاسٹک کا استعمال کم کریں: خاص طور پر سنگل یوز پلاسٹک جیسے تھیلیاں، بوتلیں اور پیکنگ میٹریل سے گریز کیا جائے۔

ری سائیکلنگ کو فروغ دیں: پلاسٹک کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں۔

آگاہی پیدا کریں: سکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیا جائے۔

حکومتی سطح پر اقدامات: حکومت کو سخت قوانین اور جرمانوں کے ذریعے پلاسٹک کے استعمال کو کنٹرول کرنا چاہیے۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زمین صرف انسانوں کی نہیں بلکہ لاکھوں انواع کی مشترکہ رہائش گاہ ہے، اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو یہ زمین ہمارے لئے بھی ناقابلِ رہائش بن سکتی ہے، آج جو پرندے پلاسٹک سے مر رہے ہیں، کل کو یہی انجام انسانوں کا بھی ہو سکتا ہے۔

محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔