لاہور: (محمد ارشد لئیق) ہوائی سفر کو دنیا کا تیز ترین اور محفوظ ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے، مگر انجن کی اچانک خرابی کسی بھی پرواز کو لمحوں میں سانحے میں بدل سکتی ہے۔
تاہم حالیہ دنوں میں ماہرین ہوا بازی نے ایک انقلابی پیش رفت کا اعلان کیا ہے، ایک ایسا جدید طیارہ جو انجن کی خرابی کی صورت میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے لمحوں میں بڑے ایئر بیگز کھول کر مسافروں کی جان بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ ٹیکنالوجی نہ صرف فضائی حادثات کے خطرات کو کم کر سکتی ہے بلکہ ہوائی سفر کے محفوظ مستقبل کی نئی راہیں بھی کھول سکتی ہے۔
چند ماہ قبل پیش آنے والے تباہ کن ایئر انڈیا طیارہ حادثے کے بعد انجینئروں نے ایک ممکنہ حل تجویز کرنے کی تحریک پائی ہے، اگرچہ یہ تصور کچھ عجیب سا دکھائی دیتا ہے، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ہر سال ہزاروں جانیں بچا سکتا ہے، یہ تصور جسے پروجیکٹ ری برتھ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، ایک ایسا طیارہ ہے جس میں کاروں کی طرح بڑے ایئر بیگز نصب کئے گئے ہیں، سینسرز اور مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئر کسی حادثے کے امکانات کا بروقت اندازہ لگا کر طیارے کے اگلے حصے، درمیانی نچلے حصے اور پچھلے حصے پر نصب ایئر بیگز کو فوراً کھول دیتا ہے۔
یہ بیگز مجموعی طور پر ایک بڑے حفاظتی خول کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جو طیارے کو تیز رفتاری کے باوجود زمین پر نسبتاً نرم انداز میں اتارتے ہیں، تاکہ ٹکر شدید یا دھماکہ خیز نہ ہو، یوں اگرچہ لینڈنگ جھٹکوں بھری ہو سکتی ہے، لیکن تباہ کن تصادم سے بچاؤ ممکن ہو جاتا ہے اور مسافر و عملہ محفوظ رہ سکیں گے، پروجیکٹ ری برتھ‘‘ کو جیمز ڈائسن ایوارڈ کے فائنلسٹ منصوبوں میں شامل کر لیا گیا ہے، جو دنیا بدل دینے والی ایجادات کو سراہتا ہے۔
پروجیکٹ ری برتھ‘‘ دراصل برلا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ سائنس، پلانی کے دبئی کیمپس سے تعلق رکھنے والے دو انجینئرز ایشل وسیم اور دھرسن سرینیواسن کی تخلیق ہے، جیمز ڈائسن ایوارڈ کی ویب سائٹ پر انہوں نے اسے دنیا کا پہلا مصنوعی ذہانت سے چلنے والا کریش سروائیول سسٹم‘‘ قرار دیا ہے، مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ نظام طیارے کی بلندی، رفتار، انجن کی حالت، سمت، آگ لگنے کی صورتِ حال اور پائلٹ کے ردعمل پر مسلسل نظر رکھتا ہے تاکہ کسی ہنگامی صورتحال کا بروقت اندازہ لگا کر فیصلہ کرسکے۔
اگر 3 ہزار فٹ سے کم بلندی پر حادثہ ناگزیر نظر آئے تو یہ نظام خودکار طور پر متحرک ہو جاتا ہے، البتہ اس مرحلے پر پائلٹ کیلئے اوور رائیڈ کا آپشن بھی موجود ہوتا ہے، انجینئرز کے مطابق طیارے کے اگلے حصے، نچلے درمیانی حصے اور پچھلے حصے سے ایئر بیگز محض دو سیکنڈ سے بھی کم وقت میں کھل جاتے ہیں، یہ بیگز کئی تہوں والے مضبوط کپڑے سے بنے ہوتے ہیں، جو زمین سے ٹکرانے پر دھچکے کو جذب کر کے طیارے کے ڈھانچے کو محفوظ رکھتے ہیں، تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ اگر طیارہ عمارتوں پر لینڈ کرے تو انہیں نقصان ہوگا یا نہیں۔
اگر ہنگامی حالت کے دوران طیارے کے انجن ابھی کام کر رہے ہوں تو ریورس تھرسٹ ( reverse thrust )متحرک ہو کر طیارے کی رفتار کم کرتا ہے اور اگر انجن ناکارہ ہو جائیں تو گیس تھرسٹرز (gas thrusters)فعال ہو کر رفتار گھٹاتے اور طیارے کو مستحکم رکھتے ہیں، اس دوران دیواروں اور نشستوں کے پیچھے موجود جھٹکے جذب کرنے والا سیال عام حالت میں نرم رہتا ہے لیکن تصادم کے وقت سخت ہو کر چوٹوں کو کم کرتا ہے۔
انجینئرز کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ ری برتھ‘‘ کو موجودہ طیاروں پر نصب کیا جا سکتا ہے یا نئے طیاروں کے ڈیزائن میں شامل کیا جا سکتا ہے، اب ان کا ہدف ہے کہ وہ ہوا بازی کی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کر کے اس کی مزید جانچ اور تجربات کریں۔
زیادہ تر ہوابازی کے حفاظتی نظام حادثات کو روکنے کیلئے بنائے جاتے ہیں، لیکن اگر حادثہ ہو ہی جائے تو زندہ بچنے کے امکانات بڑھانے والے نظام بہت کم ہیں، تاہم بانیوں کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ ری برتھ‘‘ اس لحاظ سے منفرد ہے کیونکہ یہ جب سب کچھ ناکام ہو جائے، تب بھی بدترین صورتحال کیلئے تیاری رکھتا ہے۔ ری برتھ‘‘ صرف جدت نہیں، بلکہ ایک وعدہ ہے کہ اگر تمام نظام ناکام ہو جائیں تب بھی انسانوں کو جینے کا ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔
جیمز ڈائسن ایوارڈ ایک سالانہ بین الاقوامی ڈیزائن ایوارڈ ہے جو یونیورسٹی سطح کے طلبہ یا حالیہ گریجویٹس کیلئے کھلا ہوتا ہے، اور اسے برطانوی موجد و ارب پتی جیمز ڈائسن نے قائم کیا تھا، ڈائسن کے انجینئرز اب باقی ماندہ مقابلہ کرنے والوں میں سے ٹاپ 20 کی شارٹ لسٹ تیار کریں گے، جس کا اعلان 15 اکتوبر کو کیا جائے گا، بین الاقوامی فاتح کا اعلان 5 نومبر کو ہوگا، جسے 30 ہزار پاؤنڈ انعام اور اپنا کاروبار شروع کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
محمد ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں۔