لاہور: (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ نے بریت یا ڈسچارج مقدمات کوپولیس سرٹیفکیٹ میں ظاہر کرنے سے روک دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم نے شہری ڈاکٹر عظمیٰ حمید کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا، درخواست گزار نے مقدمے کا ذکر کیے بغیر سرٹیفکیٹ جاری کرنے اور ریکارڈ ڈیلیٹ کرنے کی استدعا کی تھی۔
ہائیکورٹ نے خاتون کی بریت کے بعد پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سے ریکارڈ ڈیلیٹ کرنےکی استدعا مسترد کردی تاہم عدالت نے پولیس کو 10 روز میں خاتون کو نیا سرٹیفکیٹ جاری کرنےکی ہدایت کی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بریت، ڈسچارج یا منسوخ مقدمات کا ذکر پولیس سرٹیفکیٹ میں نہیں کیا جاسکتا البتہ پولیس بری مقدمات کا ریکارڈ رکھ سکتی ہے مگر سرٹیفکیٹ میں ظاہر نہیں کرسکتی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ رولز کے مطابق پولیس 60 سال تک مقدمات کا ریکارڈ رکھ سکتی ہے، عدالت پولیس کو ریکارڈ رکھنے سے روکنے کا حکم نہیں دے سکتی، بری شخص وہی حیثیت رکھتا ہے جیسے کبھی مقدمہ قائم ہی نہ ہوا ہو اور آئین کا آرٹیکل 14 شہری کی عزت و وقار کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔
فیصلے کے مطابق درخواست گزار خاتون پر 2016 میں فراڈ کا مقدمہ درج ہوا اور 2017 میں جوڈیشل مجسریٹ نے خاتون کی بریت کی درخواست منظور کرلی، خاتون نے اسٹڈی ویزے پر بیرون ملک جانے کے لیے پولیس ریکارڈ سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دی، پولیس نے خاتون کو سرٹیفکیٹ جاری کیا جس میں بری ہونے والے مقدمے کا بھی ذکر کیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ پولیس خاتون کو نیا سرٹیفکیٹ جاری کرے جس میں بری مقدمے کا ذکر نہ ہو۔



