لاہور: (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب کے سرکاری ملازمین کو زندگی میں گروپ انشورنس نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف سیکرٹری پنجاب نے اہم انکشاف کیا کہ مستقبل میں پنشن کی ادائیگیاں متاثر ہوسکتی ہیں جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔
سرکاری ملازمین کو زندگی میں گروپ انشورنس نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس شجاعت علی خان کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے کی جس میں چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل امجد پرویز عدالت کے حکم پر پیش ہوئے۔
درخواست گزاروں کے وکیل نوشاب اے خان نے مؤقف اختیار کیا کہ دیگر صوبوں میں ملازمین کو زندگی میں ہی انشورنس کی ادائیگی ہو جاتی ہے، پنجاب میں انشورنس کا اہل بننے کے لیے ’مرنا پڑتا ہے‘، یہ قانونی سقم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، عدالت پنجاب کے ملازمین کو زندگی میں گروپ انشورنس دینے کا حکم دے۔
اس موقع پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ عدالتی حکم کے مطابق معاملے کا دوبارہ جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں گے، پنشن کا بوجھ بہت بڑھ چکا ہے، ممکن ہے چند سالوں میں پنشن بند کرنا پڑے۔
لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے سربراہ جسٹس شجاعت علی خان نے ریمارکس دیئے کہ چیف سیکرٹری تو عدالت کو بھی دھمکا رہے ہیں کہ شاید ہمیں بھی پنشن نہ ملے، ہمارے ساتھ جو ہونا ہے ہو جائے، ہمیں عوام کے بارے میں سوچنا ہے، جسٹس سلطان تنویر نے کہا ہے کہ چیف سیکرٹری تو خود گھبرائے ہوئے ہیں کہ شاید انہیں بھی پنشن نہ ملے
دوران سماعت ججز نے واضح کیا کہ عدالت کی کارروائی صوبے اور ملازمین کی بہتری کے لیے ہے، ملک اور نظام ملازمین کے بغیر نہیں چل سکتا، تین صوبے یہ فوائد دے رہے ہیں اور وفاق بھی نیم رضا مند ہے، اگر ملازمین کی مشکلات کم نہ کیں تو نظام نہیں چل سکے گا جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراف کیا کہ ملازمین کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔
عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کو ہدایت کی کہ عملی طور پر قابلِ حل تجاویز تیار کریں، مفصل رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے سرکاری ملازمین کو زندگی میں گروپ انشورنس نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت ملتوی کردی۔



