پولی گرافک ٹیسٹ میں شکوک، لاہور ہائیکورٹ نے عمر قید پانے والے ملزم کو بری کردیا

Published On 08 December,2025 03:31 pm

لاہور: (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ نے پولی گرافک ٹیسٹ اور دیگر شواہد میں سنگین تضادات کے باعث قتل کے مقدمے میں عمر قید کی سزا پانے والے ملزم کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے 19 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ پراسیکیوشن نے کیس مضبوط کرنے کے لیے پولی گرافی ٹیسٹ پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا جو کہ آئین کے آرٹیکل 13(b) کے تحت خاموش رہنے کے حق سے متعلق سنگین آئینی سوالات اٹھاتا ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ پولی گرافک ٹیسٹ دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر، سانس اور پسینے جیسے ردعمل ناپ کر جھوٹ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے مگر اس کے لیے ملزم سے زبانی جواب لینا لازمی ہوتا ہے جو اس طریقہ کار کو مشکوک بنا دیتا ہے۔

فیصلے کے مطابق ذہنی یا جسمانی دباؤ کے ذریعے حاصل کردہ بیان زبردستی تصور ہوگا، پولی گرافی ٹیسٹ کے نتائج غلط ثابت ہونے کا نمایاں امکان رکھتے ہیں، خوف، اضطراب یا ذہنی تناؤ سچے شخص کو بھی جھوٹا ظاہر کر سکتا ہے، ایک ماہر جھوٹ بولنے والا مخصوص تکنیکوں سے ٹیسٹ کو دھوکا دے سکتا ہے۔

عدالت نے پولی گرافک ٹیسٹ کو بطور شہادت پیش کرنے کا نیا طریقۂ کار بھی طے کیا جس کے مطابق ملزم مجسٹریٹ کے روبرو اپنی رضا مندی کا واضح اظہار کرے گا، یہ رضا مندی صرف جوڈیشل کسٹڈی میں دی جا سکے گی، جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس کے سامنے دیا گیا رضامندی کا بیان قابل قبول نہیں ہوگا، ٹیسٹ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے اہل افسران کی نگرانی میں ہوگا۔

عدالت نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں کیے گئے پولی گرافک ٹیسٹ میں متعدد غیر قانونی امور پائے گئے اور ملزم کی رضا مندی شامل نہیں تھی، پراسیکیوشن موقع کے گواہوں کی عدم موجودگی میں شواہد کا سلسلہ ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے اپیل منظور کرتے ہوئے ملزم محمد عمران کو بری کرنے کا حکم دیا، عمران کو 2020 میں ایڈیشنل سیشن جج لاہور نے قتل کے مقدمے میں عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔