نسل پرستانہ تبصرہ مہنگا پڑ گیا، ہالینڈ کے فٹبال کھلاڑیوں نے ٹی وی چینل کا بائیکاٹ کر دیا

Last Updated On 20 June,2020 06:02 pm

ایمسٹرڈیم: (ویب ڈیسک) ہالینڈ کے ٹی وی چینل کو ایک مبصر کی طرف سے کیا گیا نسل پرستانہ تبصرہ بہت مہنگا پڑا ہے۔ ڈچ نیشنل فٹبال ٹیم کے کھلاڑیوں کے علاوہ کئی کاروباری اداروں نے بھی اس ٹیلی وژن چینل کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ہالینڈ کی قومی فٹ بال ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وہ  ویرونیکا اِن سائیڈ‘ نامی ٹیلی وژن چینل کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ اس چینل کے ایک کومنٹری کرنے والے میزبان کی طرف سے ایک پروگرام میں دیے جانے والے نسل پرستانہ ریمارکس بنے۔

ہالینڈ کی قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں نے کہا کہ وہ آئندہ اس ٹی وی چینل کو اس کے فٹ بال سے متعلق پروگراموں میں یا ان کے لیے کوئی انٹرویو نہیں دیں گے۔

قومی فٹ بال ٹیم کے کپتان ورجِل وان ڈائیک نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ اس ادارے نے سرخ لکیر پار کر لی ہے۔ اور وہ بھی پہلی مرتبہ نہیں۔ نہ دوسری مرتبہ۔ وہ کئی مرتبہ ایسا کر چکا ہے۔ بار بار۔ لیکن اب بہت ہو گیا، بس!

قومی فٹ بال ٹیم کے کئی کھلاڑیوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات پوسٹ کیے۔ میرل وان ڈونگن نامی سٹار فٹ بالر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ فٹ بال میں نسل پرستی کے لیے کوئی جگہ ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی گنجائش ہے۔

ان کھلاڑیوں نے اپنے ردعمل کا اظہار veronicaoffside کے ہیش ٹیگ کے ساتھ کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹرینڈ بن گیا اور اس میں کئی ڈچ پیداواری اور کاروباری ادارے بھی شامل ہو گئے۔

ویرونیکا اِن سائیڈ پر کی جانے والی شدید تنقید کی وجہ اس کے ایک سپورٹس مبصر کی طرف سے دیے جانے والے وہ ریمارکس بنے، جن میں اس نے امریکا میں جارج فلوئڈ نامی افریقی نژاد شہری کی ہلاکت کے پس منظر میں کئی دیگر ممالک کی طرح نیدرلینڈز میں بھی نسل پرستی کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں سے متعلق ہتک آمیز جملے کہے تھے۔

لیکن اس مبصر کا یہ عمل اس ادارے کو اس لیے بہت مہنگا پڑا کہ اب ہالینڈ کے کئی پیداواری اور کاروباری اداروں نے بھی یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس ٹی وی چینل کو اس کے کھیلوں سے متعلق پروگراموں کے دوران وقفے میں چلائے جانے والے کوئی اشتہارات نہیں دیں گے۔

ماہرین کے مطابق ڈچ نیشنل فٹ بالرز کی طرف سے بائیکاٹ اور کئی اداروں کے اشتہارات سے ہونے والی آمدنی کی عدم دستیابی سے اس نشریاتی ادارے کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو گی اور اسے کافی زیادہ مالی نقصان بھی ہو گا۔
 




Recommended Articles