سوچنا بھی ایک ہنر ہے!

Published On 07 Nov 2017 12:50 PM 

متعدد افراد اپنا کوئی نیا خیال اور تجویز اس لئے کسی کے سامنے پیش نہیں کرتے کہ کہیں ان کا مذاق نہ اڑایا جائے

لاہور (روزنامہ دنیا ) تخلیقی صلاحیت کے بارے میں روایتی نظریہ یہ ہے کہ وہ کوئی پیدائشی یا خداداد صلاحیت ہے جو ورثے میں ملتی ہے ۔ لیکن گھر کا ماحول ، والدین کا رویہ ، سکول کا ماحول اور ٹیچر کا رویہ سب تخلیقی صلاحیت کے فروغ یا اس کی نفی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحیح ماحول کے ذریعے تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکتا ہے ۔ کچھ ماہرین نے تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھانے کے مختلف طریقے وضع کیے ہیں ۔ ہم ان میں سے چند ایک طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ برین سٹارمنگ بہت سے افراد کوئی نیا خیال ، تجویز یاکسی مسئلے کا حل اس ڈر سے دوسروں کے سامنے پیش نہیں کرتے کہ کہیں ان کا مذاق نہ اڑایا جائے ۔
اس وجہ سے کئی اچھے اور تخلیقی خیالات منظرعام پر نہیں آتے۔ اگر کوئی فرد بار بار دوسروں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرتا تو اس کا ذہن اس قدر مفلوج ہو سکتا ہے کہ وہ اکیلے میں بھی اپنے خیالات یا رائے کا اظہار نہیں کرسکتا ۔ چونکہ یہ مسئلہ بہت عام ہے اس لیے کچھ ماہرین نے اس کے حل کے لیے ایک طریقہ دریافت کیا جس کا نام ’’برین سٹارمنگ‘‘ رکھا گیا۔ اس طریقہ کار کے دو مرحلے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ایک گروہ کے ارکان کو کسی مسئلے کے حل کے لیے تجاویز پیش کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ارکان کو یہ ہدایات دی جاتی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ حل تجویز کریں لیکن اس بات پر بالکل توجہ نہ دیں کہ یہ حل اچھا اور قابل عمل ہے یا نہیں ۔
یعنی صرف خیالات پیش کریں اور ان کا جائزہ نہ لیں ۔ اس طرح بہت سے ایسے خیالات سامنے آتے ہیں جنہیں عام حالات میں فرد عجیب یا بیکار سمجھ کر رد کردیتا ہے ، لیکن وہ ہوتے مفید ہیں ۔ اگلے مرحلے میں ان تجاویز کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اچھی اور قابل عمل تجاویز کی نشاندہی کی جاتی ہے ۔ یہی عمل انفرادی طورپرکیا جاسکتا ہے ، یعنی ایک فرد کسی مسئلے کے حل کے لیے پہلے تجاویز نوٹ کرے اور بعد میں ان کا جائزہ لے ۔ لیکن اگر یہ طریقہ کسی گروہ پر آزمایا جائے تو بہت زیادہ اور مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں اور فرد دوسروں کی سوچ سے متاثر ہو کر بھی تجاویز پیش کر دیتا ہے ۔
برین سٹارمنگ کے طریقہ کار سے تخلیقی سوچ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ دوسری طرف اس طریقہ میں یہ خطرہ موجود ہوتا ہے کہ فرد بالکل بے معنی اور بے سروپا خیالات کے اظہار کرنے کا عادی نہ ہو جائے ۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے کچھ ماہرین نے یہ طریقہ اپنایا کہ برین سٹارمنگ سے پہلے گروہ کے ارکان مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کریں اور اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں ۔ انہوں نے دیکھا کہ اس تیاری سے برین سٹارمنگ کا عمل زیادہ کارآمد ثابت ہوتا ہے ۔ برین سٹارمنگ کا یہ ترمیم شدہ طریقہ کار Synectics کہلاتا ہے ۔ لیٹرل تھنکنگ برطانوی ماہر نفسیات ، ماہر عضویات اور ماہر طب ڈاکٹر ایڈورڈ ڈی بونو نے سب سے پہلے سوچنے کی اس انداز میں تحقیق کی اور اس کی نشوونما کے طریقے دریافت کیے ۔
انگریزی زبان میں Lateral Thinking کی اصطلاح بھی ڈی بونو نے متعارف کروائی تھی۔ ڈی بونو کے مطابق ہم مسائل حل کرنے کے لیے جو روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں، وہ اکثر کارآمد ثابت نہیں ہوتے ۔ مثا ل کے طور پر کئی مرتبہ ہم ایک مسئلے کے حل کے لیے منطقی طریقے اپناتے ہیں اور ایک ہی راہ پر گامزن رہتے ہیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اس قسم کی سوچ کو بونو ورٹیکل تھنکنگ قرار دیتا ہے۔ اس کے مطابق ہمیں ایک ہی راستے پر آگے چلنے کی بجائے مسئلے کی ابتدا پر واپس آنا چاہیے اور کوئی دوسرا حل تلاش کرنا چاہیے، اور اگر یہ ناکام ہو تو تیسرا اور پھر چوتھا حل تلاش کرنا چاہیے، حتیٰ کہ صحیح حل مل جائے ۔
سوچ کے اس انداز کو ڈی بونو لیٹرل تھنکنگ کہنا ہے۔ اس نے افراد کی سوچنے کی صلاحیت بہتر بنانے کے لیے برطانیہ کی ایک قدیم اور معروف یونیورسٹی میں ایک مرکز قائم کیا جہاں سوچنے کی صلاحیت بڑھانے کے لیے ایسے طریقے ایجاد کیے جو ہر عمر کے افراد پر لاگو کیے جا سکتے تھے۔ ان طریقوں کو دنیا کے مختلف ممالک کے سکولوں، تخلیقی اداروں، کاروباری اداروں، حکومتی اداروں اور معذور افراد کے اداروں میں کامیابی سے آزمایا گیا۔ تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کام کو سیکھنے کی طرح سوچنا بھی ایک ہنر ہے جسے تربیت سے بہتر کیا جا سکتا ہے ۔