لاہور: (روزنامہ دنیا) عموماً کہا جاتا ہے کہ لڑکیاں فطرتاً ریاضی میں کمزور ہوتی ہیں اور ان میں اس صلاحیت کی کمی ہوتی ہے۔ اس خیال کو 2014ء میں اس وقت شدید دھچکا لگا جب مریم میرزا خانی نے ریاضی کا اعلیٰ ترین اعزاز ’’فیلڈ میڈل‘‘ حاصل کیا۔ وہ اسے پانے والی پہلی خاتون ہیں۔
اس خیال کو اتنا ہی شدید دھچکا آج سے 300 سال قبل پیدا ہونے والی ماریا گائٹانا آنیزی (Maria Gaetana Agnesi) نے پہنچایا تھا۔ آنیزی پہلی عورت تھی جس نے ریاضی کی نصابی کتاب لکھی اور یونیورسٹی میں ریاضی کی چیئر کے لیے اس کا انتخاب ہوا۔ اس کی زندگی کی داستان متاثر کن ہے۔ وہ 16مئی 1718ء کو اٹلی کے شہرمیلان میں پیدا ہوئی۔ اس کا باپ ریشم کا ایک مالدار تاجر تھا جس کے 21 بچے تھے۔ وہ ان میں سب سے بڑی تھی۔ پانچ برس کی عمر تک وہ فرانسیسی بولنا سیکھ گئی اور 11 برس کی عمر میں اس نے اتنی جدید اور کلاسیکی زبانوں پر عبور پا لیا کہ اسے ہفت زبان کہا جانے لگا۔ آنیزی کو بہترین تعلیم دینے کے لیے اس کا والد اپنے دور کے بڑے بڑے دانشوروں کو اپنے گھر بلاتا۔ اس سے اس کی صلاحیتوں میں مزید نکھار آیا۔
جب آنیزی نو برس کی تھی تو اس نے لاطینی میں ایک زبانی خطاب کیا۔ اسے غالباً اس کے ٹیوٹر نے تیار کر کے دیا تھا۔ اس خطاب میں فنون اور سائنس کی تعلیم پر عورتوں کے خلاف پائے جانے والے تعصبات کی مخالفت کی گئی تھی۔ تب یہ خیال راسخ تھا کہ گھر کے کام کاج میں ان علوم کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی لہٰذا عورتوں کا ان سے واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔ آنیزی نے واضح اور مؤثر دلائل دیے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو ہر طرح کے علم تک رسائی ہونی چاہیے۔
آخر کار آنیزی اپنی دانش کے اظہار سے اکتا گئی اور اس نے مذہب کی جانب رخ کر لیا۔ جب اس کے والد کی دوسری بیوی کا انتقال ہوا تو اس نے گھر اور اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی تعلیم کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ایسا کرتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اٹلی کے طلبہ کو نئے دور کی ریاضی سے آشنا کرنے کے لیے نصابی کتاب کی ضرورت ہے۔ آنیزی کو ریاضی سے خصوصی لگاؤ تھا۔ اس کے خیال میں تجربے سے حاصل ہونے والے علم میں نقائص ہو سکتے ہیں اور وہ بحث طلب ہیں۔ تاہم ریاضی سے یقینی سچ تک پہنچا جا سکتا ہے اور اس کی جستجو ایک خاص مسرت دیتی ہے۔ نصابی کتاب لکھتے ہوئے وہ نہ صرف پڑھانے کا کام کر رہی تھی بلکہ طلبہ کے لیے تنقیدی سوچ کے در کھول رہی تھی۔
کتاب 1748ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی جس کا عنوان ’’تجزیے کے بنیادی اصول‘‘ تھا۔ نیوٹن اور اولر کی طرح اس نے کتاب لاطینی زبان میں نہیں لکھی بلکہ اسے عام اطالویوں کی زبان میں لکھا تاکہ طلبہ آسانی سے سمجھ سکیں۔ اٹلی سے باہر پیرس اور کیمبرج میں اس دور کے سکالروں نے اس نصابی کتاب کو اپنی یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے ترجمہ کیا۔ 1749ء میں ’’فرنچ اکیڈمی‘‘ نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی: ’’ہمارے خیال میں یہ سب سے جامع اور اعلیٰ کتاب ہے۔‘‘ ہم عصر ریاضی دان یاں ایٹین مونٹوکا نے بھی اسے خوب سراہا۔
وہ عورتوں اور غریبوں کی تعلیم کی زبردست حامی تھی۔ آنیزی کا خیال تھا کہ فطری سائنسز اور ریاضی کو تعلیمی نصاب میں اہم مقام دیا جانا چاہیے۔ 1752ء میں اپنے والد کے انتقال کے بعد اس نے خود کو مذہب کے لیے وقف کرلیا۔ وہ غریبوں، بیماروں اور بے گھر افراد کی خدمت میں جت گئی۔ اس نے اس کا آغاز اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا ہسپتال قائم کر کے کیا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی دولت اور ملنے والے تحائف کو اس راہ میں خرچ کر دیا۔ اس نے جہاں ریاضی میں مہارت حاصل کی وہیں انسانیت کی خدمت کو بھی اپنا شعار بنایا۔ اس کا انتقال 80 برس کی عمر میں ہوا۔
ترجمہ: ر۔ع