وینکووا: (ویب ڈیسک) سائنس کی ترقی نئی سے نئی ایجادات کے راستے کھول رہی ہے، یونیورسٹی آف کولمبیا کے سائنسدانوں نے سب سے چھوٹا الٹراساونڈ سسٹم تیار کیا ہے کہ جسے آسانی سے جیب میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اور اس کی قیمت بھی بہت کم یعنی پاکستانی ساڑھے 12 ہزار روپے ہے۔
یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا، کینیڈا کے ماہرین نے نئی تکنیک کے ذریعے الٹراساؤنڈ کا عمل سادہ اور کم خرچ بنادیا ہے۔ اس میں داب برق (پیزوالیکٹرک) معدن کے بجائے پولیمر سے بنا گوند نما مادہ استعمال کیا گیا ہے جو تھرتھراہٹ پیدا کرکے ٹرانس ڈیوسر کا کام کرتا ہے۔ اسے ’’پولی سی ایم یو ٹی ٹرانس ڈیوسر ڈرم‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
عموماً الٹراساؤنڈ میں داب برق (پیزوالیکٹرک) کرسٹلز استعمال کیے جاتے ہیں جو کرنٹ ملنے پر شکل بدلتے ہیں اور تھرتھراہٹ (وائبریشن) پیدا کرتے ہیں۔ آواز کی لہروں میں یہ ارتعاشات جسم میں جاتے ہیں اور وہاں موجود اعضا سے ٹکرا کر ریڈار کی لہروں کی طرح واپس لوٹتے ہیں۔
اب یہی داب برق کرسٹلز ان صوتی لہروں کو دوبارہ بجلی میں بدلتے ہیں اور پروسیسنگ کے بعد اس کی ایک تصویر ظاہر کرتے ہیں۔ اس تصویر کو دیکھ کرماہرین جسم کےاندر بیماری مثلاً پتھری وغیرہ کا پتا لگاتے ہیں۔
عموماً یہ ٹرانس ڈیوسر ڈرم سخت سلیاکن سے بنائے جاتے ہیں جو مہنگا اور ماحول دشمن عمل ہے اور اسی لیے الٹراساؤنڈ کےلیے یہ بہتر امیدوار نہیں۔ مگر اب بی یوٹی کے پی ایچ ڈی طالب علم نے پولیمرکی سے عین پیزوالیکٹرک مٹیریل کا کام لیا ہے۔ اس طرح بہت سے پرزوں کی ضرورت بھی ختم ہوگئی جس سے اس کی قیمت کم ہوتی گئی۔
ابتدائی تجربات سے معلوم ہوا کہ اس چھوٹے الٹراساؤنڈ سے عین وہی نتائج حاصل ہوتے ہیں جو کسی بڑے اور مہنگے الٹراساؤنڈ سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس کی دوسری اچھی بات یہ ہے کہ اسے 10 وولٹ بجلی درکار ہوتی ہے اور یہ اسمارٹ فون اور پاور بینک سے بھی چل سکتا ہے۔
اس طرح کا الٹراساؤنڈ کسی بھی لچکدار شکل میں ڈھل کر بدن پر لپیٹا بھی جاسکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے مزید تحقیق کرکے اس نظام سے رگوں اور شریانوں کو دیکھنا بھی ممکن ہوسکے گا۔ اس طرح یہ الٹراساؤنڈ مستقل دل اور دیگر اعضا کی کیفیات سے بھی آگاہ کرے گا۔