لاہور: (روزنامہ دنیا) اب بچوں کے گھٹنوں پر چوٹ لگتی ہے، انہیں فوراً پتا چل جاتا ہے کہ وہ زخمی ہو چکے ہیں اور اب علاج کی ضرورت ہے۔ لیکن جب انہیں ذہنی طور پر کچھ ہوتا ہے، وہ غالباً اس کی دیکھ بھال کو اتنی توجہ نہیں دیتے۔ دراصل اچھی ذہنی صحت برقرار رکھنے کا سبق نہ صرف بالغوں بلکہ بچوں کو بھی دیا جانا چاہیے۔
بچوں اور نوعمروں کی ایک سائیکوتھراپسٹ اور مصنفہ کیٹی ہُرلے کے مطابق عموماً اس طرح کا دباؤ جو کالج میں داخلے کی درخواست دینے والے ہائی سکول کے بچوں میں دیکھنے میں آتا ہے، اب میرے پاس آنے والے ایک پانچ سالہ بچے میں نظر آیا۔ وہ تشویش اور شدید دباؤ میں مبتلا تھا۔ یعنی مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کچھ طریقے تجویز کرتے ہیں جن کی مدد سے بچوں کو ذہنی صحت کی اہمیت کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے۔ ان کے ذریعے وہ اپنا اظہار کر سکتے ہیں، اپنے جذبات سمجھ سکتے ہیں اور اپنی جسمانی صحت کی طرح اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھ سکتے ہیں۔
ہُرلے کے مطابق اس نے بچوں اور ان کے والدین سے گفتگو کے لیے ’’جذباتی آتش فشاں‘‘ کا طریقہ استعمال کیا۔ اس نے وائٹ بورڈ پر ایک آتش فشاں کی ڈرائننگ بنائی اور وضاحت کی کہ ہر ایک کے دن بھر مختلف جذبات ہوتے ہیں۔ جب وہ ان جذبات کا اظہار نہیں کرتے تویہ اس آتش فشاں میں جمع ہوتے رہتے ہیںجو بالآخر پھٹ پڑتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آپ روتے ہیں یا کسی شے کو مارتے ہیں۔
ہُرلے کے مطابق زیادہ تر والدین سمجھے ہیں کہ مسئلہ رویوں کی خرابی ہے ہے لیکن اس سے زیادہ ’’یہ جذبات کا پھٹنا ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔‘‘ اسی لیے بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ اپنے جذبات پر بات کریں اور ایک کے بعد دوسرے کا اظہار کریں۔ بہت سی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بچوں کا سکرین کے سامنے زیادہ دیر تک رہنا، نوعمروں کا بہت زیادہ آن سکرین گیمز کھیلنا اور سوشل میڈیا استعمال کرنا رویے، موڈ، نیند کے اوقات اور مجموعی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ماہر امراض اطفال ڈاکٹر کیتھرائن ولیم سن کے مطابق بچوں کو سنبھالنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ سکرین پر معقول حد تک وقت بِتائے تاکہ خود ایک مثال بن سکے ۔ مثلاً وہ رات کے کھانے یا سوتے وقت فون استعمال نہ کرکے ایسا کر سکتا ہے۔ ایک ماہر نفسیات کے مطابق والدین کو بچوں کے چہرے کے تاثرات سے ازخود نتائج مرتب نہیں کرنے چاہئیںبلکہ انہیں وضاحت کا موقع دینا چاہیے۔
ان کے مطابق اگر آپ کو لگے کے کسی مشکل صورت حال میں بچے کے چہرے کے مخصوص تاثرات ہوتے ہیں، تو ایسے میں ’’ارے مایوس کیوں ہو‘‘ کہنے کے بجائے یہ کہنا بہتر ہے ’’تم چہرے سے پریشان لگ رہے ہو۔ کیا بات ہے؟‘‘ یوں بچہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے قابل ہو گا۔ آپ خود ہی فرض مت کریں کہ بچہ کس تجربے سے گزر رہا ہے۔ درست جملوں اور سوالات کا انتخاب ضروری ہے۔ یہ پوچھنے کے بجائے کہ ’’سکول کیسا رہا؟‘‘ یہ پوچھنا بہتر ہے کہ تم نے ریاضی کی کلاس میں کیا کیا؟‘‘امریکی یونیورسٹی آف روچسٹر میڈیکل سنٹر کے مطابق روزنامچہ لکھنے سے تشویش اور یاسیت سے نپٹنے میں مدد ملتی ہے۔ بچے کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنے جذبات کو لکھیں۔
ترجمہ: رضوان عطا