سوشل میڈیا کے استعمال سے ذہنی دباؤ میں 75 فیصد اضافہ

Last Updated On 22 April,2019 01:02 pm

لاہور: (دنیا میگزین) طبی ماہرین نے کہا ہے کہ جم کر ایک جگہ بیٹھے رہنے کے بھی کم وبیش وہی منفی اثرات ہیں جو ہم سگریٹ نوشی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد بھی سگریٹ نوشی سے مرنے والوں کے برابر ہی ہے۔

مارچ 2019ء کو سوشل میڈیا کے بے تحاشا استعمال کے اثرات پر بی بی سی نے تفصیلی خبر جاری کی۔ بی بی سی نے اسے بچوں بالخصوص ٹین ایجرز میں ذہنی امراض کا ایک سبب قراردیا۔

پبلک آڈٹ کمیٹی نے صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر وزرا سے کمیشن بنا کر اس پر تحقیق کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ گزشتہ 5 برس کے دوران بچوں کے ذہنی امراض میں 22 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

پبلک آڈٹ کمیٹی کو ڈیٹا اکھٹا نہ کرنے کے اس سرکاری رویے پر اعتراض ہے۔ گزشتہ سال برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بڑھتے ہو ذہنی امراض کی روک تھام کے لئے وزیر صحت کو ’’وزیر برائے تنہائی اور خود کشی سے بچاؤ‘‘ کا اضافی چارج بھی دے دیا ہے۔

انہوں نے کم عمری میں موبائل کے بے تحاشا استعمال کے منفی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی روک تھام کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ تنہائی کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے۔ وزیر کے مطابق ’’عوام کو ایک لڑی میں پرونا ضروری ہے‘‘۔

گزشتہ 5 برسوں میں سکاٹ لینڈ میں ذہنی امراض کے حوالے سے رجوع کرنے والے یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد میں دو تہائی اضافہ ہوا ہے۔ 2012ء میں 7 ہزار طلبہ نے ذہنی امراض کے علاج میں معاونت مانگی۔ 2016ء میں یہ تعداد 1170 ہوگئی۔

گلاسگو یونیورسٹی میں مذکورہ عرصے میں ذہنی پریشانیوں میں مبتلا طلبہ کی تعداد میں 75 فیصد، گلاسگو سکول آف آرٹس میں 72 فیصد اور یونیورسٹی آف سڑلنگ میں دباؤ کا شکار طلبہ کی تعداد میں 74 فیصد اضافہ ہوا۔ ایڈنبرا یونیورسٹی میں بھی ذہنی امراض میں مبتلا طلبہ کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

گلاسگو شیل ڈونین یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس افئیر کے ڈائریکٹر جے کی مین کے مطابق یہ مسئلہ یکجہتی نہیں، بلکہ اس کے کئی پیچیدہ پہلو ہیں۔ ہمارے ہاں طلبہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر 24 گھنٹے تنقید،گالی، دھمکیاں اور دھونس چلتی ہے جس کے باعث سوشل میڈیا بھیانک میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ وہاں 24 گھنٹے پائی جانے والی تلخی اور کشیدگی نے نوجوانوں کا ذہن مفلوج کر دیا ہے۔

ذہنی امراض میں خوفناک اضافے کے باوجود نظام صحت نوجوانوں کی مدد کرنے سے معذور ہے۔ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے والے سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے رہن سہن اور سماجی زندگی پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے زمین کو گرم کرنا شروع کر دیا ہے۔ آنے والے وقتوں میں گلیشئرز خوب پگھلیں گے اور ان کا پانی کئی ممالک اور شاید کئی امریکی ریاستوں کو بھی ڈبو دے ۔ کون ڈوبے گا اور کون بچے گا؟ یہ جنگ سوشل میڈیا پر لڑی جا رہی ہے۔

طبی ماہرین نے ایک جگہ جم کر بیٹھنے کو بھی نئی ’’سگریٹ نوشی ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ بیٹھے رہنے کے بھی کم وبیش وہی منفی اثرات ہیں جو ہم سگریٹ نوشی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

مرنے والوں کی تعداد بھی سگریٹ نوشی سے مرنے والوں کے برابر ہی ہے یعنی سوشل میڈیا اور سگریٹ نوشی کو ایک جیسا قاتل کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

انسانی صحت تو ایک طرف، یہ دونوں جانیں لینے میں بھی کم نہیں ہیں۔ امریکی جریدہ ’’فوربز‘‘ میں شائع ہونے والے ایلس جی والٹن کے مضمون کا موضوع بھی یہی ہے یعنی ’’سوشل میڈیا چھ طریقوں سے ہماری ذہنی صحت کو متاثر کر رہا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں جب ایک دو منٹ بھی فارغ ملتے ہیں تو ہم نیوز فیڈ یا ٹوئٹر وغیرہ کھول لیتے ہیں، بظاہر یہ عام سی بات لگتی ہے مگر ہم نہیں جانتے کہ یہ حرکت ہمارے ذہن اور صحت پر کتنی بھاری پڑتی ہے۔

امریکا کی ’’اکادمی برائے زچگان‘‘ نے سوشل میڈیا کے خوفناک اثرات سے خبردار کیا ہے۔ انہوں نے ٹین ایجرز اور کم عمر بچوں میں آپس میں محاذ آرائی اور بحث مباحثے کو ذہنی نشوونما کے لئے نہایت نقصان دہ قرار دیا ہے۔ اسی لئے مغرب میں ’’FaceBook Depression‘‘ اور ’’Cyber Bullying ‘‘ کے نام سے دو نئے امراض متعارف ہوئے ہیں۔

یہ نفسیاتی مسائل بچوں سے مخصوص نہیں، مغربی تحقیق کے مطابق موبائل فون کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اٹین ایجرز اور ان سے کم عمر کے بچوں میں یہ امراض عام ہوتے جا رہے ہیں لیکن بڑے بھی ان سے محفوظ نہیں ہیں۔

یہ چھ طریقوں سے ذہنی نشوونما کو برباد کر رہا ہے۔ ایک تو یہ نشہ بن چکا ہے۔ اسی موضوع پر کئی برس پر مشتمل تحقیق سے سوشل میڈیا اور نشے کا باہمی تعلق بھی دریافت کیا گیا ہے۔

یعنی سوشل میڈیا انسانی ذہن پر کم وبیش وہی اثرات مرتب کرتا ہے جو نشہ سے ہوتے ہیں۔ تمام سائنسدان اس سے متفق نہیں ہیں، مگر سب کا اتفاق کرنا ضروری یا لازمی بھی نہیں ہے۔

نوٹنگھم یونیورسٹی کی رپورٹ کا ٹائٹل(FaceBook Addiction Disorder) ہی اس کی تحقیق کی تصدیق کرتا ہے۔ انہوں نے اسے ڈس آرڈر یعنی دماغی خلل سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی مدد سے نوجوان عملی زندگی سے فرار حاصل کرتا ہے۔ وہ معاشرے سے کٹ جاتا ہے۔ ذہن ہر وقت کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا رہتا ہے۔ اس سے قوت برداشت میں بھی کمی آ سکتی ہے۔

اگرچہ سوشل میڈیا کا مقصد آپس کے تعلقات کو مضبوط کرنا اور ایک دوسرے کو مسلسل رابطے میں رہنا ہے۔ ایسی سائٹس 1996ء میں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں اور اب ان کی تعداد حشرات الارض کی طرح بڑھتی جا رہی ہے بلکہ شاید ان سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔

دوسری طرف ہر سائٹ پر ہر کسی کا ذہنی میعار اور نکتہ نظر مختلف ہے۔ ان سب پر لازم نہیں کہ وہ دوسرے کا نکتہ نظر تسلیم کریں یا اس کا جواب دیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ ’’راستہ ‘‘ ہی بدل لیں یعنی کوئی دوسری سائٹ کھول لیں۔ ورنہ وہاں ہونے والے ذہنی تصادم کا نتیجہ پریشانی اور خلفشار کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا۔

اس سے ذہنی خلفشار بڑھ رہا ہے۔ اسی لئے ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ معلومات ضرور حاصل کیجئے مگر اس حد تک نہیں کہ آپ سوشل میڈیا کے غلام بن جائیں۔