برلن: (ویب ڈیسک) انسانی جسم میں تقریبا 20 کلوگرام بیکڑیا ہوتے ہیں۔ نظام ہضم میں پائے جانے والے لاکھوں بیکٹیریا اور دیگر مائیکروبز کئی طرح کی بیماریوں کے پیدا ہونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جن میں مختلف اعصابی امراض بھی شامل ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سوال یہ ہے کہ معدے اور انٹریوں میں پائے جانے والے ایسے بیکٹیریا دماغی امراض کا سبب کیسے بن سکتے ہیں؟ نئی طبی تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ انسانی نظام ہضم دماغ کو بھی متاثر کرتا ہے۔
پارکِنسنز سنڈروم، الزائمر اور ملٹی پل سکلِیرَوسِس جیسے امراض کا تعلق معدے اور انتڑیوں سے بھی ہے۔ فرائی برگ یونیورسٹی کے نیوروپیتھالوجسٹ پروفیسر مارکو پرنس کہتے ہیں کہ ایک اچھے اور صحت مند دماغ کے لیے اچھی طرح کام کرنے والے بیکٹیریئل نظام ہضم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ یوں معدہ دماغ کی بہتر مدد کر سکتا ہے۔
فیصلہ کن کردار غالباﹰ نظام ہضم میں موجود بیکٹیریا کا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر کسی کے جسم میں اربوں، کھربوں، مجموعی وزن تقریباﹰ بیس کلوگرام اور یہ دماغ کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ چوہوں پر کیے گئے تجربات سے ثابت ہو گیا کہ معدے اور انتڑیوں میں اچھے بیکٹیریا کے بغیر دماغ کو نقصان پہنچتا ہے۔
پروفیسر مارکو پرنس بتاتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ چوہوں میں جن کے نظام ہضم میں کوئی بیکٹیریا موجود ہی نہیں تھے ان کا دماغی مدافعتی نظام ڈرامائی طور پر بدل گیا تھا۔
فرائی برگ کے یونیورسٹی کلینک کے ریسرچرز نے مختلف بیماریوں کے خلاف دماغی مدافعتی نظام کے اِمیون سیلز کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ دماغی مدافعتی خلیات صرف اس وقت درست کام کرتے ہیں جب انتڑیوں میں موجود بیکٹیریا ان کے لیے خاص طرح کے مادے تیار کریں۔
پروفیسر مارکو پرنس کا کہنا تھا کہ مائیکروگلِیا سیلز کہلانے والے مدافعتی خلیات دماغ میں بہت فعال ہوتے ہیں۔ انکے باہر کو نکلے ہوئے حصے مستقل حرکت میں رہتے اور اعصابی خلیات سے جڑے ہوتے ہیں۔ جب نظام ہضم کے بیکٹیریا کی بنائی ہوئی میٹابولِک مصنوعات یا فیٹی ایسڈز دستیاب نہیں ہوتے تو یہ خلیات بہت سکڑ جاتے ہیں۔ اس طرح مرجھا جاتے ہیں، جیسے کسی باغ کے وہ پودے جنہیں پانی نہ دیا گیا ہو۔
اگر نظام ہضم سے ملنے والے مادے دستیاب نہ ہوں تو دماغی مدافعتی نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔ صحتمند خوراک سے معدے اور انتڑیوں کے بیکٹیریا ہی وہ بہت اہم فیٹی ایسڈز تیا رکرتے ہیں، جن میں پروپیئن اور دیگر میٹابولِک مصنوعات شامل ہوتی ہیں۔
محققین نے جاننا چاہا کہ آیا ایسے فیٹی ایسڈز کے ساتھ کسی چوہے کے بیمار نیورو اِمیُون سسٹم کا علاج ممکن ہے؟ انہوں نے چوہوں کو پانی میں پروپیئن ایسڈ ملا کر پلایا تو زیر مشاہدہ جانوروں کا دماغی مدافعتی نظام واقعی بہتر ہونا شروع ہو گیا۔
پروفیسر پرنس کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے بڑا ہی حیران کن نتیجہ تھا جس کی ہمیں توقع ہی نہیں تھی۔
کیا انسانوں میں بھی ایسے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے؟ یعنی معدے کے ذریعے دماغی بیماریوں کا علاج؟ جرمن شہر بوخُم کے سینٹ جوزف ہسپتال کے ماہرین کی رائے میں ایسا ممکن ہے۔ وہ انسانوں میں ملٹی پل سکلِیرَوسِس کے مریضوں کے دماغی خلیات اور معدے اور انتڑیوں کی کارکردگی میں تبدیلیوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔
جرمن شہر بوخم کے سینٹ جوزف ہسپتال کے نیورولوجسٹ اور پروفیسر آئیدَین آگِیکِیا کہتے ہیں کہ ہم نے تجربات میں کمپوزیشن میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا معدے اور انتڑیوں میں پائے جانے والے مائیکروبز یعنی ہر قسم کے وہ بیکٹیریا جو نظام ہضم میں پائے جاتے ہیں۔ ہم نے بیکٹیریئل کمپوزیشن میں مجموعی کمزوری اور کمی کے واضح آثار بھی دیکھے۔ وہاں ان بیکٹیریا کی مختلف اقسام میں پایا جانے والا تنوع بھی بہت کم ہو گیا تھا۔‘‘
ایک صحت مند انسانی جسم میں تقریباﹰ ایک سو ساٹھ طرح کے بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ ملٹی پل سکلِیرَوسِس کے مریضوں میں کئی اقسام کے بیکٹیریا مر چکے تھے۔ کیوں؟ یہ بات غیر واضح ہے۔ مگر بیکٹیریا کی اقسام کا کم ہونا نقصان دہ ہے۔ یوں پروپیئن فیٹی ایسڈ کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔
پروفیسر آئیدَین آگِیکِیا کا کہنا تھا کہ معدے اور انتڑیوں میں ایسے اچھے بیکٹیریا کم ہوں گے، تو نظام ہضم میں پروپیئن ایسڈ بھی کم پیدا ہو گا۔ فیٹی ایسڈ کی شرح کا پتہ مریضوں کے بلڈ ٹیسٹ سے لگا لیا جاتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی امیون سسٹم کا ایک حصہ انتڑیوں کی اندرونی سطح سے بھی کام کرتا ہے۔ ایک انسان کو صحت مند غذا، بدل بدل کر کھانا چاہیے، نظام ہضم کے اچھے بیکٹیریا اپنا کام کرتے رہیں، تو معدہ اور دماغ دونوں صحت مند رہتے ہیں۔