لاہور: (دنیا میگزین) ڈیجیٹل فری لانسنگ کے ذریعے گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ہر خاص و عام کی ضرورت بن چکا ہے۔
ایک زمانہ تھا، جب ملکوں کو فتح کرنے والی جنگیں انسانی طاقت، گھوڑوں اور تلواروں کے بل بوتے پر جیتی جاتی تھیں۔ پھر تباہ کن روایتی ہتھیار اور ایٹم بم دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے استعمال ہوئے۔ اب بڑے ممالک صرف اقتصادی اور ٹیکنالوجی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ اسی کے ذریعے اپنے حریفوں ،اور دوستوں کو بھی، شکست دے رہے ہیں۔ اب انکا سب سے بڑا ہتھیارمضبوط معیشت ہے، جس ملک کے پاس بھی یہ ’’ہتھیار‘‘ موجود ہے گویا وہ غالب ہے۔معاشی طور پر کمزور ممالک ان دیکھی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔
کسی بھی ریاست کی مضبوط معیشت کا انحصار ٹھوس پالیسیوں پرعمل درآمد پر منحصر ہے۔ جدید معاشی ترجیحات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ڈیجٹلائزیشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیپ ٹاپس اور موبائل فونز کسی دور میں لگژری اشیاء سمجھے جاتے تھے، آج ہر فرد کی ضرورت بن چکے ہیں ۔ اب دنیا کا مستقبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور نیٹ ورکنگ کے ساتھ منسلک ہو چکا ہے ، یا یوں کہہ لیں کہ دنیا کا مستقبل ڈیجیٹل ہے۔پاکستان میں انٹرنیٹ 4Gتک آیا ہے۔ یہ بھی تمام علاقوں میں میسر نہیں ، جبکہ دنیا اس سے کہیں آگے ہے۔ بے شمار سرکاری محکموں میں 2020 میں بھی آن لائن خدمات کا مکمل نظام موجود نہیں۔ اس پر بھی خاص توجہ دینی چاہیے ، جس سے لوگوں کو آسانی ہو گی اور عملے کا دباؤ بھی کم ہو سکے گا۔
پاکستانی معیشت اور آئی ٹی کی اہمیت
پاکستان کے اقتصادی مسائل پر نظر دوڑائیں تو برآمدات میں کمی، افراط زرمیں اضافہ اور اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ سرفہرست ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملکی قرضہ 35.5کھرب روپے تک جا پہنچا ہے‘ جس میں ڈومیسٹک قرضہ 23.4 کھرب اور بیرونی قرضہ 12.1 کھرب ہے۔ اسی قرضے کی قسطوں کو پورا کرنے کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دروازے پردستک دینا پڑتی ہے۔ پاکستان اگر چاہے تو آئی ٹی میں ترقی لا کرنہ صرف ان قرضوں سے جان چھڑاسکتا ہے بلکہ اپنی معیشت میں بھی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں شعبہ آئی ٹی میں بتدریج بہتری دیکھی گئی ہے۔ گوگل نے 2018 میں پاکستان کو ڈیجیٹل کی دنیا میں تیزی سے ابھرتا ہوا ملک قراردیا۔ اسی طرح 2019 میں امریکی جریدے ’’فوربز‘‘ میں ڈیوڈ بلوم نے لکھا کہ ’’ پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر سے امیدیں بڑھ رہی ہیں جس کیلئے حکومت پاکستان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں، اورامن کے قیام میں آئی ٹی کا شعبہ کردار ادا کرسکتا ہے‘‘۔
ملک میں 5.9 کروڑ سمارٹ فون صارفین موجود ہیں جبکہ انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 7.6کروڑ ہے جو ہماری آبادی کا تقریباً 35فیصدہے۔رواں مالی سال کے پہلے تین مہینوں میں آئی ٹی کی برآمدات میں بلحاظ حجم گزشتہ برس کے مقابلے 43 فیصد اضافہ دیکھا گیا ۔ گزشتہ سال پاکستان میں آئی ٹی سے متعلق برآمدات 3.5 ارب ڈالر رہیں جبکہ بھارت نے اس شعبے میں 100 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کیں۔ 2020 کی پہلی ششماہی میں چین کی سافٹ ویئر انڈسٹری 3.56 ٹریلین یوان یعنی 508 ارب ڈالر تک جاپہنچی۔ چین نے گوگل کے مقابلے میں اپنا سرچ انجن بنایا۔ اس کمپنی نے 2019 میں 15 ہزار ملین ڈالر سے زائد کا ریونیو کمایا تھا۔ آج بھارت کی جدید سافٹ ویئرانڈسٹری دنیا کی مجبوری بن چکی ہے ،یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں آئی ٹی و کمپیوٹر کے مرکز Silicon Valley میں بھارتی کمپوٹر انجینئرز کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ ہم بھی اپنے شعبہ آئی ٹی کوجدید سہولیات سے لیس کرتے ہوئے ایک بڑی مارکیٹ میں تبدیل کرسکتے ہیں ،اس کے ذریعے ’’برآمدات بذریعہ خدمات‘‘ میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
آئی ٹی اور انٹرنیٹ کے ذریعے کیسے کمایا جائے؟
آئی ٹی سیکٹر سے منسلک تمام شعبہ جات سے بے تحاشہ مالی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جبکہ کروڑوں افراد روزگار بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ IT Based Skils رکھنے والی لیبر پوری دنیا میں اپنی خدمات کے ذریعے کما رہی ہے ۔جو گھر بیٹھ کر بھی کمایا سکتاہے۔ اسے عموماً Digital Freelancing کا نام دیا جاتا ہے ۔ پوری دنیا بشمول پاکستان میں فری لانسنگ یا آن لائن جاب کی مدد سے گھر بیٹھے پیسے مندرجہ ذیل چند طریقوں سے با ٓسانی کمائے جا سکتے ہیں۔
کانٹینٹ رائٹنگ
کانٹینٹ رائٹنگ کو اس وقت آن لائن فری لانسنگ میں سب پر برتری حاصل ہے ، اچھا لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کسی ذاتی بندے، گروپ ، کمپنی کی ویب سائٹ یا ان کے مختلف پراجیکٹ کیلئے لفاظی کر سکتے ہیں۔ اور خوب پیسے کما سکتے ہیں۔ آج کے دور میں ویب سائٹ کے مواد کیلئے اچھا لکھنے والوں کی بہت مانگ ہے، جنھیں عموماً روایتی طریقوں سے نوکری دینے کی بجائے، ان کی خدمات کو آن لائن ہی فی پراجیکٹ خریدا جاتا ہے۔ اسی طرح اکیڈمک تحریر سے بھی خوب پیسے کمائے جا سکتے ہیں، پوری دنیا میں گریجویٹ طلبہ اپنے اسائینمنٹ اور تھیسز وغیرہ کے کام کو حتمی شکل دینے کے لیے بہترین اکیڈمک لکھاریوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بدلے اچھے پیسے ادا کیے جاتے ہیں۔
بلاگنگ
اگر آپ کسی ایک موضوع پر لکھنے ، بولنے کیلئے پرجوش ہیں تو اس حوالے سے آپ اپنا بلاگ بناسکتے ہیں۔ اپنا بلاگ شروع کرنے کے لیے آپ کو اردو یا انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے۔ اس کیلئے آپ کی تحقیق پر مکمل کمانڈ ہونی چاہیے اور خیالات یکتا ہوں تو بہتر ہے۔ ویب کی دنیا میں اپنا بلاگ بنانا اب نہایت آسان ہو چکا ہے۔ جہاں آپکو آن لائن اشتہارات ملتے ہیں۔ ذاتی بلاگ کی تشہیر اور قارئین کی تعداد بڑھانے کے بعد گوگل و دیگر سرچ انجنز سے باقاعدہ اشتہارات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ بلاگ پڑھنے والے قارئین کیجانب سے اشتہارات پر کلکس کے بعد ان اشتہارات سے خاصے اچھے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔
آن لائن مارکیٹنگ
آج کے جدید دور میں مارکیٹنگ ہی ایسی نوکری ہے جس پر نا کوئی "انکار" ہے ، نہ کوئی "اعتراض" ہے اور نہ اس شعبے کو کوئی زوال ہے ، ہر کمپنی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تشہیر کی جائے اور زیادہ سے زیادہ سپانسرز لائیں جائیں، جس کیلئے ہمیشہ وہ اپنی مارکیٹنگ ٹیم کو بڑھانے کی خواہشمند ہوتی ہے، تشہیر کے مقصد کیلئے اب کمپنیاں آن لائن ہی لوگوں کو ہائر کرتی ہیں ، جو اس کمپنی کی فیس بک ، انسٹا، ٹویٹر، واٹس ایپ و دیگر پلیٹ فارمز پر مارکیٹنگ کرتے ہیں ، جس کام کے ان کو پیسے دیئے جاتے ہیں۔
ڈیٹا انٹری
ڈیٹا انٹری کا ہنر سیکھ کر بھی آن لائن طریقے سے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ ڈیٹا انٹری جاب کے لیے ٹائپنگ اور بنیادی لیول کی انگلش پر عبور ہونا لازمی شرط ہے۔ ڈیٹاانٹری کے کام کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ مگر یہ کام اکثر آتا رہتا ہے، ہر سال کے اختتام ، الیکشن کے دوران سرکاری ڈیٹا انٹری کیلئے بھی آن لائن خدمات حاصل کی جا تی ہیں۔
مارکیٹ ریسرچ
مارکیٹ ریسرچ گروپ کا حصہ بن کر بھی آن لائن طریقے سے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے لوکل اور بین الاقومی کمپنیوں اور تحقیقی ایجنسیوں سے رابطہ کرکے اس ریسرچ گروپ کا حصہ بنا جاسکتا ہے۔ خیالات اور آئیڈیاز بڑی کمپنیوں سے شیئر کر کے پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ بہت ساری ویب سائٹس مختلف کمپنیوں کے نئے پروڈکٹس کا جائزہ رپورٹ تحریر کرنے کے بدلے بھی رقم کی ادائیگیاں کرتی ہیں۔
فیس بک پیج اور ویب سائٹ چلانا
متعدد ریسٹورنٹس کے فیس بک پیج اور ان کے انسٹا اکاؤنٹ چلانے کیلئے آن لائن ہی بندوں کی تلاش رہتی ہے ، جنہیں ماہانہ تنخواہ اور مراعات دینے کے بجائے انکو کام کے وقت کے حساب سے پیسے دیئے جاتے ہیں، کئی سٹودنٹس اور دوسری روایتی نوکری کرنے والے افراد اس طریقے کو اپنی پارٹ ٹائم جاب کے طور پر استعمال میں لاتے ہیں اور آن لائن پیسے کماتے ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا پر عبور حاصل ہونا ضروری ہے۔
ٹریول اینڈ ٹورز ایجنٹس
ٹریول ایجنٹ بننے کے لیے آفس کا ہونا لازمی نہیں ہے۔ٹریول اور ٹورز کمپنیاں کمیشن کے بدلے ٹکٹ فروخت کرنے کے لیے لوگوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کے ساتھ رجسٹر ہوکر آن لائن ٹکٹس فروخت کر کے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ مختلف ٹورز کے پیکج پلان کر کے بھی لوگوں کو اچھی تجاویز دی جا سکتی ہیں۔ اور آن لائن گائیڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔
آن لائن خدمات کا زیادہ استعمال کہاں؟
حالیہ سالوں میں بڑے شہروںبالخصوص لاہور، کراچی ، اسلام آباد میں آن لائن خدمات میں ایک غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے ، لوگ اپنی زندگی میں آسانی لانے کی طرف بتدریج راغب ہو رہے ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں سمارٹ فون استعمال کرنے والے 73فیصد صارفین کے فون پر ٹیکسی اور بسوں کی سروسز کی ایپس موجود ہیں۔ کھانے کو گھر تک پہنچانے کی ایپس ان کے علاوہ ہیں۔
آن لائن بینکنگ:آن لائن بینکنگ کے ذریعے موبائل فون سے بینک اور اس سے متعلقہ تمام کام چند منٹوں میں نمٹائے جا سکتے ہیں۔ بجلی کے بل ہاتھ میں تھامے لمبی قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنے اور چیک کاٹنے کا فرسودہ طریقہ ختم ہو رہا ہے۔ آن لائن بینکنگ کے آنے سے لوگوں کو بینک کا قرض اور سہولیات لینے میں آسانی ہوئی ہے، مگر ان سہولیات سے اب بھی کم لوگ آگاہ ہیں۔
آن لائن شاپنگ:مختلف کمپنیاں جہاں آن لائن اشیاء فروخت کرکے اربوں کما رہے ہیں ۔ ایک ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ کلچر پاکستان میں عام نہیں تھا مگر اب لوگ اس جانب جا رہے ہیں۔
آئی ٹی کے نقصانات
آئی ٹی اور انٹرنیٹ کے استعمال نے جہاں آسانیاں دی ہیں وہیں کچھ منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ان کے استعمال سے لوگ سست ہوتے جا رہے ہیں، فاسٹ فوڈ کے استعمال کا رجحان بھی بڑھا ہے جس سے بچوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ انٹرنیٹ کی بات کریں کو سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہمارے سامنے ہے، لوگ فیس بک اور دیگر پلیت فارمز کے ذریعے لوگو ں کو ہراساں کر رہے ہیں اور بیوقوف بنا رہے ہیں۔اس کی روک تھام کے لئے حکومت کو کڑی مانیٹرنگ کرنی چاہیے، چھوٹی عمر کے بچوں کو آگاہی دینا والدین کی ذمہ داری ہے۔ مربوط پالیسیاں بنا کر پاکستان کو ڈیجیٹل بنایا جا سکتا ہے جس پر حکومت کو خاص توجہ دینی چاہیے۔