لاہور: (سپیشل فیچر) امریکہ زمین سے 32 ہزار میٹر کی اونچائی پر بادلوں میں عالیشان ٹاور بنانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اینا لیما ٹاور دنیا کی بلند ترین مگر بادلوں میں بننے والی واحد عمارت ہوگی۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور آسٹریلیا جیسی بڑی طاقتیں کسی نمبر پر نہیں ہیں؟ دنیا میں اس وقت چوہتر عمارتوں کو بلند ترین کہا جاتا ہے جو متحدہ عرب امارات، چین، سعودی عرب،جنوبی کوریا ،امریکہ، تائیوان،روس ،ویت نام ، ملیشیاء اور کویت میں واقع ہیں۔
22 بلند ترین عمارات کی تعمیر سے چین دیگر ممالک پر بازی لے گیا ہے۔ اس میدان میں امریکہ چین سے پیچھے اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہے۔امریکہ اور متحدہ عرب امارات 10، 10بلند ترین عمارات کے ساتھ دوسرے نمبر پرہیں۔روس میں تین ، سعودی عرب، جنوبی کوریا اور ملیشیاء میں دو، دو اور دیگر ممالک میں ایک ایک بلند ترین عمارت بنائی گئی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا میں بلند ترین عمارتوں کی تعمیر زور وشور سے جاری ہے لیکن جو باتیں کبھی قصے کہانیوں میں پڑھی تھیں وہ حقیقت کے روپ میں سامنے آ سکتی ہیں کیونکہ اب امریکہ کچھ نیا کرکے تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ وہ زمین سے 32 ہزار میٹر کی اونچائی پر بادلوں‘‘ میں عالیشان ٹاور بنانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اینا لیما ٹاور (Analemma Tower) دنیا کی بلند ترین مگر بادلوں ‘‘میں بننے والی واحد عمارت ہوگی۔
یاد رکھیئے، زمین کی گردش کے ساتھ ساتھ یہ عمارت بھی گردش میں رہے گی۔ زمین کے شمالی اور جنوبی حصے میں گھومتی رہے گی۔ اسی لئے عمارت کے مکینوں کے گھر کا ایڈریس کبھی دبئی کا ہوگا اور کبھی نیو یارک کا۔یہ عمارت گردش میں رہنے کے باعث ہر 24گھنٹے بعد اپنی اصل جگہ پر واپس آ جائے گی۔
بظاہر یہ بات ہضم نہیں ہوتی، لیکن سائنس دانوں نے سر کھپائی کے بعد ہی یہ منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ کسی بھی خرابی یا منفی تبدیلی کی صورت میں اسے زمین پر اتار لیا جائے گا۔ ٹاور کی تعمیر میں ناسا کے Asteroid Redirect Mission ‘‘ کی مدد بھی حاصل ہے۔ ٹاور کی تعمیر کے لئے مناسب وقت پر روبوٹس اور مضبوط پتھر بھی بادلوں میں بھیجے جائیں گے۔
ٹاور کی ٹاپ کی پانچ منزلوں پر انتہائی ٹھنڈ ہوگی۔ درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سیلسئس تک جا سکتا ہے۔ عام حالات میں اس درجہ حرارت پر باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ صفر درجہ حرارت پر پانی برف بن جاتا ہے، سانس میں شامل آبی ذرات بھی جمنے لگتے ہیں۔ لیکن اس ٹاور کے مکین خلاء میں 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر بہت مزے سے زندگی گزاریں گے۔
انہیں خلا بازوں جیسی خصوصی تربیت دی جائے گی۔ دھوپ کا دورانیہ 45 منٹ زیادہ ہوگا جس سے سورج کی اضافی روشنی ملے گی۔ شمسی توانائی سے بجلی ملے گی۔ بادلوں اور ہوا سے پانی لے گا۔ فلٹر اور صاف کرنے کی مشینری پلانٹ میں نصب ہوگی۔ توانائی ،کھانا پینا سارا کچھ اندر ہو گا۔ رہائشی 8 گھنٹے کی نیند پوری لیں گے، مکین اور ملاقاتی ڈرونزکے ذریعے بالائی منزلوں پر جا سکیں گے ۔ طاقت ور لفٹیں بھی دستیاب ہوں گی۔
غیر ملکی کونسل The Council on Tall Buildings and Urban Habitat‘‘ نے بھی اس عمارت کے بنائے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔یہ منصوبہ 2015ء میں یورپی سپیس ایجنسی‘‘ کے تعاون سے Clouds AO‘‘ نے تشکیل دیا ہے۔ یورپی سپیس ایجنسی ‘‘کا روزیٹا مشن ‘‘ (Rosetta Mission) چرمویوف جراسمینکو ) نامی مشتری کے ایک دمدار ستارے (Comet )پر 6 اگست 2014 کو اتر چکا ہے۔
اس کی مدد سے ہونے والی تحقیق سے بھی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔32ہزار میٹر کی اونچائی پر موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے والے میٹریل کی تیاری پر تجربات مکمل کر لئے ہیں۔ڈیزائنر کی تجویز کے مطابق تعمیراتی میٹریل میں ہلکاترین کاربن فائبر اور ایلومینیم استعمال کیا جائے گا ، تاہم انتہائی ترقی یافتہ کیبل انڈسٹری درکار ہوگی۔
ٹاور کے زیریں حصے تجارتی مقاصد کے لیے مخصوص ہوں گے ، اس سے اوپر کی منزل پر بیڈ رومز ہوں گے۔ڈیزائنر روڈا کیوچ (Rudakevych)کے بقول مسافر ڈرونزپر سفرکریں گے،جو خصوصی طور پر اسی مقصد کے لئے بنائے جائیں گے۔جبکہ ان کی سہولت کے لئے خصوصی الیکٹرو میگنیٹک لفٹیں بھی ہوں گی۔بالائی حصے میں سٹی سنٹر‘‘ بنائے جائیں گے ۔دیگر سرگرمیوں کے لیے اے ،بی اور ڈی کے حصے مخصوص کئے گئے ہیں۔ڈی پورشن بلند ترین حصہ ہو گا۔ ٹاور کی کھڑکیوں کا سائز ان کی اس بلندی اور ہوا کے دبائو کے ساتھ بدلتارہے گا۔ماہرین کے مطابق کیلی فورنیا کی بلندترین عمارت کے مقابلے میں یہ ٹاور سستا پڑے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمارت 32ہزارمیٹر کی بلندی پر ہوا میں کھڑی کیسے ہوگی؟ ۔برطانوی سائنسدان اس سلسلے میں یونیورسل اور ویکٹر سپورٹس سسٹم‘‘ تیار کررہے ہیں۔ اس سسٹم کے تحت زمین کے مدار میں ایک طاقتور مصنوعی سیارہ چھوڑا جائے گا۔ یہ زمین کے گرد چکر لگانے کی بجائے کسی ایک جگہ پر ساکن کھڑا رہے گا۔ اس میں انتہائی طاقتور کیبل سسٹم لگا ہوگا۔ ٹاور کو زمین کے مدار میں ہی تعمیر کیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سائنس دانوں کو کوئی Comet‘‘ یا asteroid‘‘ مل گیاتو اس سے کام لیا جا سکتا ہے! اس کے بالائی حصے کو مضبوط تاروں کی مدد سے asteroid‘‘سے جوڑنے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ Clouds Architecture Office‘‘ نامی ادارہ مریخ پر بستی بسانے سے متعلق ایک بڑے منصوبے میں ناسا کا شراکت دار ہے۔مزکورہ منصوبے کا نام Martian habitat dubbed Mars Ice Home‘‘ ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ ناسا بھی فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کا جائزہ لینے کے لئے ایک مصنوعی سیارہ خلا میں چھوڑے گاجس کے بعدناسا بھی ہوا‘‘ میں عمارتوں کی تعمیر کے شعبے میں قدم رکھ دے گا۔ فی الحال تو شاید ناساکے ماہرین مذکورہ کمپنی کے کاموں کا جائزہ لے رہے ہوں گے۔