وسکونسن: (روزنامہ دنیا) سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین ہر 26سیکنڈ بعد بہت ہی معمولی ‘دھڑکتی’ ہے یعنی ‘‘خورد زلزلے ’’ آتے ہیں جنہیں صرف زلزلہ پیما آلات پر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ماہرین انہیں ‘زمین کی دھڑکن بھی کہتے ہیں، لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اب تک ماہرین بھی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں جان سکے ہیں۔ 2013 میں ووہان، چین میں ‘‘انسٹی ٹیوٹ آف جیوڈیسی اینڈ جیو فزکس’’ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے ینگجیائی ژیا کی سربراہی میں تحقیق کے بعد بتایا کہ زمین میں ہر 26سیکنڈ بعد اٹھنے والے زلزلوں کی وجہ سمندری لہریں نہیں بلکہ آتش فشاں ہیں۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد بہت ہی معمولی نوعیت کے زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔
لیکن ایسا ہوتا کیوں ہے، اس کی ایک وضاحت یوں سامنے آئی ہے کہ سورج کی شعاعیں قین ی کے مقابلے میں خط استوا اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو زیادہ گرم کرتی ہیں جس کے سبب قطبین کے مقابلے میں یہاں سمندری طوفان بھی زیادہ آتے ہیں، اس دوران انتہائی طاقتور لہریں جب ساحلوں سے ٹکراتی ہیں تو اپنی توانائی زمین میں منتقل کر دیتی ہیں جس سے زمین میں معمولی تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے۔
کئی سائنسدانوں نے اپنی تحقیقات کی روشین میں اس وجہ سے اتفاق نہیں کیا تو ایک اور تھیوری سامنے آئی کہ زمین کے ہر 26 سیکنڈ کے زلزلے کی وجہ سمندری لہریں نہیں بلکہ آتش فشاں ہیں،اس دعوے میں بائٹ آف بونی کے قریب ساوتومے کے جزیرے پر آتش فشاں کا ذکر کیا گیا جو خورد زلزلے پیدا کرتا ہے۔ سائنسدانوں نے اس کا بھی جائزہ لیا تاہم حتمی رائے سامنے نہیں آ سکی، اسی لئے زمین کی دھڑکن کہلائے جانے والے زلزلوں کا پتہ لگانے میں ناکامی پر ماہرین تاحال پریشان ہیں۔