برلن: (ویب ڈیسک) جرمنی کی مشہور زمانہ تحقیقی سوسائٹی ماکس پلانک سے منسلک پاکستانی نژاد آصفہ اختر کو 2021ء کے لائبنٹس انعام سے نوازا گیا ہے۔ یہ جرمنی میں سائنسی تحقیق کا اعلیٰ ترین ایوارڈ مانا جاتا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے میں چھپنے والی خبر کے مطابق پاکستان کے شہر کراچی میں 1971ء میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر آصفہ اختر نے 1997ء میں امپیریئل کینسر ریسرچ فنڈ لندن میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ انہوں نے 1998ء سے 2001ء کے دوران جرمن شہر ہائیڈل برگ میں قائم یورپین مالیکیولر بائیولوجی لیبارٹری (ای ایم بی ایل) اور میونخ میں واقع اڈولف بوٹینانٹ انسٹیٹیوٹ میں اپنی پوسٹ ڈاکٹوریل فیلوشپ مکمل کی۔
ڈاکٹر آصفہ اختر 2013ء سے جرمن شہر فرائبرگ میں ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے ایمیون بائیولوجی اور ایپی جینیٹکس میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائض ہیں۔ رواں سال یکم جولائی سے ڈاکٹر آصفہ نے ماکس پلانک سوسائٹی کے انتہائی اہم عہدے کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ہیں۔
ڈاکٹر آصفہ نے کہا تھا کہ میرے خیال سے ہیومن ہیلتھ سے متعلق ریسرچ پر سرمایہ کاری کرنا بہت ضروری عمل ہے۔لائبنٹس ایوارڈ کی تقسیم کی تقریب 15 مارچ 2021ء کو ڈجیٹل انداز میں منعقد ہو گی۔
ڈاکٹر آصفہ اختر جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جرمنی کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے امیونولوجی اینڈ ایپی جینیٹکس کی ڈائریکٹر ہیں اور اپنی جدید ترین تحقیق کی وجہ سے غیر معمولی شہرت حاصل کر چکی ہیں۔
ڈوئچے ویلے میں لکھا ہے کہ اس کے علاوہ ڈاکٹر آصفہ ماکس پلانک سوسائٹی کی وائس پریزیڈنٹ یا نائب صدر بھی ہیں۔ جرمن ریسرچ فاؤنڈیشن (ڈی ایف جی) کی جانب سے انہیں 2021ء کے لائبنٹس ایوارڈ کے اعزاز سے نوازنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر آصفہ کو ایپی جینیٹکس، جین ریگولیشن اور بنیادی حیاتیاتی سیل پر نت نئے تجربات کرنے اور ان کی مدد سے انتہائی اہمیت کی حامل نئی معلومات منظر عام پر لانے کا کام انجام دینے پر اس گراں قدر انعام سے نوازا جا رہا ہے۔
اس ایوارڈ کا حقدار قرار پانے پر ڈاکٹر آصفہ کا کہنا تھا کہ یہ ایوارڈ میرے لیے انتہائی اعزاز کی بات ہے۔ میں اپنی لیب کے سابقہ اور موجودہ اراکین اور ٹیم ممبران کی خاص طور سے شکر گزار ہوں۔ ان کی کمنٹمنٹ اور محنت نے ہمارے لیے اس ایوارڈ کے حصول کو ممکن بنایا۔
جرمن شہر فرائی برگ میں قائم ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں ڈاکٹر آصفہ اور ان کی ٹیم نے ایپی جینیٹکس یعنی حیاتیاتی میکنزم کا مطالعہ کیا جو جین کی تبدیلیوں، ان کے خلیوں کی نشونما، ان خلیوں میں متعلقہ پروٹین کی تیاری وغیرہ کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔
انہوں نے اپنے اس انتہائی دقیق تجرباتی مشاہدے کے بارے میں ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ جس طرح ڈی این اے کو انسانی جسم کی ساخت اور بناوٹ سے متعلق تمام تر تفصیلات کا مرکب سمجھا جاتا ہے اسی طرح ان تفصیلات کو اگر ایک ٹیکسٹ کی شکل میں تیار کیا جائے تو Epigenetics کو اس ٹیکسٹ کے مختلف حصوں کو مختلف رنگوں کی مدد سے ہائی لائٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس انسانی جسم کے مختلف حصوں کے مختلف گوشوں پر مشتمل ایک موزیک ٹائلز کی طرح کی ترتیب حاصل ہو گی جس سے ہم انسانی جسم کی ساخت اور بناوٹ کی باریک ترین تفصیلات کو باآسانی پہچان سکیں گے، اس پر ریسرچ کر سکیں گے۔ ان اجزاء کی مدد سے ایک نسخہ یا ترکیب تیار کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر آصفہ کا کہنا ہے کہ ان کی لیب میں ایسے میکنزم پر بہت کام ہو رہا ہے جس سے یہ پتا چلایا جا سکے کہ جین کو کیسے ریگولیٹ کیا جائے۔ مختلف ماڈل سسٹمز بروئے کار لائے جاتے ہیں۔
انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پھلوں پر بیٹھنے والی مکھیوں اور چوہوں پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ہم ان کی لیب میں ایک ہیومن سنڈروم کی تشخیص ہوئی جس کا تعلق نارمل اور صحت مند تھے مگر ان کے بچے De Novo Mutation کے شکار بچوں سے تھا۔ اس سے پہلے بھی ان کی ٹیم نے ریسرچ کی تھی جس کے نتائج سے پتا چلا کہ ان مسائل کی نیچر ایپیجینیٹک ہوتی ہے۔ اس طرح پروگریسیو ڈیویلپمنٹل ڈیلے‘ کی تشخیص ممکن ہوئی۔ ڈاکٹر آصفہ کا کہنا ہے، جب تک ہمیں ہیومن باڈی کے نارمل میکنزم کا پتا نہ ہو تب تک ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کے وہ کون سے عناصر ہیں، جن میں نقص ہونے کے سبب کوئی ڈس آرڈر یا بیماری جنم لیتی ہے۔
یہ تحریر جرمنی کے مشہور نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے اردو میں شائع ہوئی