لاہور: (دنیا نیوز) روبوٹس کی یہ قسم پہلی مرتبہ 2016ء میں عوام کے سامنے پیش کی گی تھی تاکہ انہیں طب کی دنیا میں ہونے والی پیش رفت اور مستقبل کی نرس سے آگاہی حاصل ہو سکے۔
صوفیہ‘‘ کے یہ تاریخی الفاظ ریکارڈ کر لئے گئے ہیں کہ میں مشکل ترین حالات میں کسی بھی مریض کی بہتر طور پر خدمت کر سکتی ہوں، میں ہر ماحول میں ایڈجسٹ ہو سکتی ہوں ، مجھے کسی موسم یا حالات میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا، بات چیت اور تھیراپی کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بحالی میں بھی تعاون کرسکتی ہوں۔ میرا کوئی ثانی نہیں’’۔
صوفیہ دراصل کسی نرس کا نام نہیں ہے، یہ انسانی انداز میں مریضوں کی خدمت کرنے والا روبوٹ ہے۔ ماہرین نے اسے ہیومینائیڈ روبوٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا (یا کسی اور وبا ) کے دور میں یہ روبوٹ مریضوں کی خدمت انسانوں سے بہتر انداز میں کر سکتا ہے، یہ باتیں بھی کر سکتا ہے اور دوا بھی دے سکتا ہے، مرہم پٹی کرنا تو بائیں ہاتھ کا کام ہے۔
اس روبوٹ نے اپنی لیب کا دورہ بھی کیا تھا، مریضوں‘‘ سے بھی ملاقات کی اور اپنی باتوں سے ان کا دل بہلایا۔گزشتہ برس کورونا وباء کا علاج کرنے والے 6 لاکھ سے زائد ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹرز اس وباء کا شکار ہوئے تھے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بھی ڈاکٹرز اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر مریضوں کاعلاج کر رہے ہیں اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین نے روبوٹ نرسوں ‘‘کی تیاری کا کام تیز تر کر دیا ہے۔گزشتہ برس سے ہی صنعتی بنیادوں پرمشینری کے آرڈرز دے دیئے گئے تھے۔
سوشل ربورٹس کے ماہر پروفیسر جوہان کا کہنا ہے کہ میں نے روبوٹس کی تیاری کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی کا سہارا لیا ۔ اگرچہ کافی محنت کر چکا ہوں لیکن پھر بھی یہ نوزائیدہ حالت ، یعنی ابتدائی مرحلے میں ہے تاہم خیال ہے کہ کورونا وباء کے دور میں انسان اور روبوٹس کا تعلق پہلے سے بہتر ہوگا اور دونوں مل جل کر معاشرے میں رہ سکیں گے‘‘۔ ان کا اشارہ کئی اداروں میں روبوٹس کے استعمال سے پیدا ہونے والی بیروزگار اور روبوٹس مخالف روئیے کی جانب تھا ۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال کے آخر تک شاید ان کی صنعتی بنیادوں پر تیاری شروع ہو جائے ،اور بعض ممالک میں مریضوں اور بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کا کام ان کے سپرد کر دیا جائے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ کورونا وباء کے دور میں روبوٹک ٹیکنالوجی ‘‘کو تیزی سے ترقی ملے گی کیونکہ ا سکے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘۔ایک اور ادارے نے گریس ‘‘نامی انسانی روبوٹ تیار کیا ہے۔کئی دیگر پلیئرز بھی میدان میں ہیں۔
چین نے ماسک نہ پہننے والوں کو پکڑنے ، ادویات اور اشیائے خوردونوش کی فراہمی کیلئے بھی روبوٹس سے کام لیا تھا بلکہ ووہان میں پورا ہسپتال روبوٹ کی مدد سے چلایا گیاتھا۔ جہاں اکثر میل یا فی میل نرس یہ روبوٹس ہی تھے۔ مگر دیگر ممالک میں ہیلتھ ٹیکنالوجی میں ان کا استعمال کافی کم ہے۔ کئی ہسپتالوں میں روبوٹس نے سرجری اور دیگر شعبوں میں بھی معاونت شروع کر دی ہے اسے روبوٹک سرجری‘‘ کہا جارہا ہے۔ تاہم یہ ابھی محدودہے لیکن یورپ اور امریکہ میں کئی بیماریوں میں اس کا استعمال تیز ی سے بڑھتا جارہا ہے۔روبوٹس کی مدد سے ڈاکٹر اور سرجن صاحبان بیمار حصے کا تھری ڈی تجزیہ کر سکتے ہیں۔
2019ء میں اس شعبے میں خرید و فروخت 32فیصد ترقی کے ساتھ 11ارب ڈالر ہو گئی تھی۔ ا گر ہم اسی سال یہ روبوٹس بنانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ بزنس 32فیصد سے کہیں زیادہ ترقی کرے گا۔