لاہور: (خاور نیازی) کسی دانا کا قول ہے ’’کوئی بھی نعمت جب ایک حد سے بڑھ جائے تو وہ زحمت بن جاتی ہے‘‘، یہی حال دنیا میں پھیلے گلیشیئرز کا ہے جو بیشتر ممالک کے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں لیکن جب یہ ایک حد سے زیادہ پگھل کر جھیلوں کی شکل اختیار کرنا شروع کر دیں تو وہ نہ صرف بستیوں بلکہ زندگیوں کو بھی اجاڑ دیتے ہیں، ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں لاکھوں کیوسک پانی اچانک خارج کر سکتی ہیں۔
گلیشیئرز کے ذریعے بننے والی جھیلیں غیر مستحکم اور خطرناک اس طرح ہوتی ہیں کہ یہ اپنے ساتھ آنے والے پانی کے ریلے میں پتھر اور مٹی بھی لاتی ہیں، ماہرین کے مطابق گزشتہ ایک صدی کے دوران گلیشیئرز کے نتیجے میں بننے والی جھیلوں کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کثیر تعداد میں گاؤں، مکانات، عمارتیں اور متعدد تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں قطبی علاقوں کو چھوڑ کر دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں جن کی تعداد سات ہزار بتائی جاتی ہے، اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوکش ہمالیہ میں 3044 گلیشیئرز جھیلوں میں بدل چکے ہیں، جن میں سے 33 جھیلیں ایسی ہیں جو کسی بھی وقت خطرے کا باعث بن کر 71 لاکھ تک افراد کو متاثر کر سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے ڈبلیو ایم او کی رپورٹ کے مطابق ’’متواتر موسمیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ برس دنیا بھر میں پہلے سے زیادہ خشک سالی، سیلاب اور گرمی کی شدت دیکھنے میں آئی، جس سے لوگوں کی صحت، زندگیوں اور روزگار کے خطرات میں مزید اضافہ ہوا ہے‘‘۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’’گلیشیئرز کے پگھلنے اور سطح سمندر میں اضافے کا عمل اگلے ہزاروں سال تک جاری رہے گا، جو 2022ء میں دوبارہ ریکارڈ سطح پر جا پہنچا تھا‘‘، ڈبلیو ایم او کا مزید کہنا تھا کہ ’’بحر منجمد جنوبی میں برف کی تہہ میں تاریخی کمی آئی جو بذات خود تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے جبکہ یورپ میں بعض گلیشیئرز کا پگھلنا واقعتاً غیر متوقع اور حیران کن تھا‘‘۔
اس کے علاوہ گرین لینڈ اور انٹارکٹکا میں گلیشیئرز اور برفانی تہہ کے پگھلنے کے علاوہ گرمی کے سبب سمندری حجم بڑھنے سے بھی سطح سمندر میں اضافہ ہوا ہے، جس سے ساحلی علاقوں اور بعض صورتوں میں پورے ممالک کے وجود کو خطرات لاحق ہیں، اسی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ ہمالیہ کے گلیشیئرز جو پاکستان میں پانی کے بنیادی ذرائع (سندھ طاس) کو پانی سے بھرتے ہیں، پوری بیسویں صدی کے دوران ان گلیشیئرز نے اپنے وجود کا اتنا حصہ نہیں کھویا جتنا 2000ء کے بعد سے کھو چکے ہیں، پاکستان جیسے ملک کیلئے یہ صورتحال اس لئے بھی تشویشناک ہے کہ اس کے کل جی ڈی پی کا 23 فیصد حصہ زرعی شعبے اور سندھ طاس پر انحصار کرتا ہے، جو پاکستان میں غذائی پیداوار کیلئے براہ راست خطرہ ہے۔
گلیشیئرز پگھلنے کی وجوہات کیا ہیں؟
ناسا نے کچھ عرصہ پہلے گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی رفتار پر ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ دنیا بھر میں گلیشیئرز کے جھیلوں میں تبدیل ہونے کے والیم میں 150 مکعب کلومیٹر اضافہ نوٹ کیا گیا ہے جبکہ 1994ء اور 2017ء کے درمیان دنیا کی گلیشئئرز جھیلوں میں 65 کھرب ٹن پانی کا اخراج ہوا ہے، مزید یہ کہ گزشتہ ایک صدی میں سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ کا 35 فیصد حصہ گلیشیئرز کا پگھلنا ہے۔
ماہرین تواتر سے پگھلتے گلیشیئرز کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کو ٹھہراتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں جنگلات کی کمی اور تیزی سے درختوں کی کٹائی کو بھی گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے، یہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے شمالی علاقہ جات میں لگ بھگ بیس سے پچیس لاکھ افراد باقاعدگی سے لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کرتے آ رہے ہیں جس کے باعث جنگلات بڑھنے کی بجائے تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اب سے کچھ سال پہلے ماہرین نے اپنی ایک رپورٹ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو قابو نہ کر سکنے کو گلیشیئرز کے پگھلنے کی ایک وجہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو متنبہ کیا تھا کہ اگر اس مسئلے کا بروقت ادراک نہ کیا گیا تو کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندو کش سلسلے میں واقع گلیشیئرز کا دوتہائی حصہ ختم ہو سکتا ہے۔
حتیٰ کہ اگر اس صدی میں دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک محدود بھی کر دیا جائے تو بھی ان گلیشیئرز کا ایک تہائی حصہ ختم ہو جائے گا، جو اس علاقے میں رہنے والے آٹھ ممالک جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار، افغانستان، بھارت، بھوٹان، نیپال اور چین شامل ہیں کے تقریباً 25 سے 30 کروڑ افراد کیلئے پانی کا واحد ذریعہ ہیں۔
آج سے دو سال قبل اقوام متحدہ کے ادارے ’’ڈبلیو ایم او‘‘ نے ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ صنعتی دور کے بعد سے زمین کے درجہ حرارت میں تو ایک ڈگری کا اضافہ ہوا ہے لیکن دنیا بھر کے پہاڑی علاقوں میں دو ڈگری اضافہ ہوا ہے جس کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں اور گلیشیئرز پگھلنے کے اثرات
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی ان موسمیاتی تبدیلیوں کے گلیشیئرز پر واضح اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان گلیشئرز کے پگھلنے سے نہ صرف ان کے قریب کی آبادیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ دور دراز رہنے والے بھی متاثر ہوتے ہیں، عالمی سطح پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان میں بالخصوص زراعت کا شعبہ شدید خطرات کی زد میں ہے۔
’’گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس‘‘ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے، پاکستان میں گزشتہ کچھ برسوں سے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ سیلاب، قحط اور خشک سالی کے واقعات میں تیزی آتی جا رہی ہے، پاکستان میں گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ہزاروں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی سے گلیشیئرز جھیلوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا، گزشتہ سال شمالی علاقہ جات میں شسپر گلیشیئر کی وجہ سے پاکستان اور چین کو ملانے والی شاہراہ قراقرم مکمل طور پر بند ہو جانے کے سبب دونوں ملکوں کے درمیان کئی روز تک زمینی راستہ منقطع رہا تھا، گزشتہ کچھ سالوں سے ماہرین، بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کے ارباب اختیار ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز جھیلوں میں اضافے کو روکنے کیلئے اگر بروقت ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو ناقابل تلافی نقصان سے شاید ہمیں کوئی نہ بچا سکے گا۔
خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے موقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔