’’ زی لینڈیا‘‘: گمشدہ آٹھواں براعظم؟

Published On 06 November,2023 11:37 am

لاہور: (خاور نیازی) براعظموں کے بارے ہم اور آپ تو روز اوّل سے بس اتنا جانتے ہیں کہ اس روئے زمین پر براعظم ایشیا، افریقہ، انٹارکٹکا، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا سمیت سات براعظم ہیں، براعظموں کی گنتی کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے۔

ایک عرصہ سے جغرافیائی ماہرین یہ بحث کرتے آ رہے تھے کہ براعظموں کی تعداد سات نہیں بلکہ چھ ہے، ماہرین جغرافیائی طور پر اس کی توضیح اس طرح کرتے ہیں، انٹارکٹکا، افریقہ، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا اور یوریشیا (یورپ اور ایشیا بنیادی طور پر ایک جغرافیائی خطہ ہے)۔

یہ بحث ابھی جاری تھی کہ پچھلے کچھ سالوں سے ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے، جس کے تحت دنیا بھر کے بیشتر سائنسدان اور ماہر اراضیات یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ اس روئے زمین پر براعظموں کی تعداد سات کی بجائے آٹھ ہے اور یہ آٹھواں براعظم دراصل ایک گمشدہ براعظم تھا جو ماہرین اور مہم جوؤں کی شبانہ روز مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں دریافت ہوا ہے۔

گمشدہ براعظم کی تاریخ اور تفصیل میں جانے سے پہلے چند سال پہلے ازراہ تفنن کیا گیا ایک مغربی اخبار کا دلچسپ تبصرہ کچھ اس طرح سے تھا!

’’ہم اپنی روزمرہ زندگیوں میں سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں کہ فلاں کی گھڑی گم ہو گئی یا کسی کی کتاب یا بائیسکل اور اکثر یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ فلاں دوست کی گاڑی گم ہوگئی ہے، یہی نہیں بلکہ بعض اوقات یہ خبر بھی سننے میں آتی ہے کہ فلاں ملک کا ہوائی جہاز لاپتہ ہوگیا ہے لیکن ایسا ہم نے آج تک نہیں سنا کہ اس روئے زمین پر پورے کا پورا براعظم ہی گم ہو چکا ہو، یہ سب کچھ نہ صرف ناقابل یقین لگتا ہے بلکہ حیران کن بھی ہے‘‘۔

’’زی لینڈیا‘‘ بنیادی طور پر زمین کا ایک بڑا سا ٹکڑا ہے جو بحراکاہل کے جنوب مغرب میں پانیوں کے نیچے موجود ہے، اس کا صرف 6 فیصد حصہ سمندری سطح سے اوپر ہے، جس میں چند جزیرے اور تین خشکی کے ٹکڑے نمایاں ہیں جو کہ نیوزی لینڈ کے شمالی اور جنوبی جزیروں اور نیو کیلیڈونیا پر مشتمل ہے، یہی وہ مجوزہ آٹھواں براعظم ہے، سائنسدان اور ماہر اراضیات کے مطابق دراصل یہی وہ براعظم ہے جو کروڑوں سال پہلے گہرے پانیوں میں غائب ہوگیا تھا۔

اس براعظم کی تحقیق اور نقشوں کے اجراء کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ براعظم تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ سال پہلے سمندر برد ہو گیا تھا، تحقیق کے دوران یہ بھی پتہ چلا ہے کہ گمشدہ یہ براعظم 3800 فٹ گہرے پانیوں کے اندر ہے، نقشوں کے ذریعے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کہیں زمین بہت اونچی ہے تو کہیں بلند و بالا پہاڑ بھی ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ زیر آب کہیں کہیں گہری وادیوں کے سراغ بھی ملے ہیں۔

’’زی لینڈیا‘‘ کے نقشے دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ویسے تو پورا ’’زی لینڈیا‘‘ ہی سمندر کے اندر قید ہے لیکن کارڈ ہووے آئی لینڈ کے پاس بالس پرامڈ نامی ایک چٹان سمندر کی سطح سے باہر جھانکتی نظر آتی ہے جس سے سمندر کے اندر ایک براعظم کی موجودگی کا تاثر ملتا ہے۔

روزنامہ ’’گارجین‘‘ نے تحقیق کاروں کے حوالے سے یہ خبر شائع کی تھی کہ ’’زی لینڈیا‘‘ لگ بھگ 8 کروڑ سال پہلے ’’گونڈوانا‘‘ کے بڑے براعظم سے ٹوٹ کر الگ ہوا تھا، ’’زی لینڈیا‘‘ کو یہ نام باقاعدہ طور پر 1995ء میں ایک امریکی سائنسدان بروس لینڈک نے دیا تھا، 2017ء تک اس براعظم کی دریافت پر کام جاری رہا، حتیٰ کہ اس کے بعد اس براعظم کے وجود کو تسلیم کیا جانے لگا۔

’’زی لینڈیا‘‘ رقبے کے لحاظ سے آسٹریلیا سے لگ بھگ دوتہائی بڑا ہے، جو 50 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے، روایتی طور پر اب تک نیوزی لینڈ کو آسٹریلیا کے براعظم ہی کا حصہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

حال ہی میں سائنسی تحقیقی ادارے جی این ایس سائنس کے سائنسدانوں نے ’’زی لینڈیا‘‘ کی حدود کا ایک نیا تفصیلی نقشہ بنایا ہے جسے معروف میگزین ’’ٹکٹونکس‘‘ میں شائع کیا گیا تھا، تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ وہ سمندر کی تہہ سے کھودی گئی چٹانوں کی تلچھٹ اور پتھریلے ٹکڑوں کی مدد سے نقشے کھینچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ اس مجوزہ براعظم کا مکمل سطحی رقبہ معلوم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں جو 50 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔

’’زی لینڈیا‘‘ کب اور کیسے دریافت ہوا؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ’’زی لینڈیا‘‘ کو دریافت کرنے کیلئے نیوزی لینڈ کی تاریخ اور جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہاں کے معروضی حالات کا مطالعہ بھی ضروری ہے، نیوزی لینڈ کی دریافت بھی کچھ ایسے ہی انداز میں ہوئی تھی، سائنسدانوں کے مطابق نیوزی لینڈ ایک پہاڑی سلسلے کی باقیات ہیں، جسے 1642ء میں ڈچ سیاح ایبل تسمن اور اس کی ٹیم نے دریافت کیا تھا جو بنیادی طور پر بہت سارے جزائر کا مجموعہ تھا، چنانچہ اب آٹھویں مجوزہ براعظم کی چھڑی بحث کو لگ بھگ پونے چار سو سال ہو چکے ہیں اور اب دنیا ’’زی لینڈیا‘‘ کی حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوئی ہے۔

’’زی لینڈیا ‘‘کی تلاش میں ایک دلچسپ بات یہ سامنے آئی ہے کہ اس براعظم کو تلاش کرنے والے بہت سے مہم جو اور سائنسدان درحقیقت اس کے پانیوں کو متعدد بار عبور کرتے رہے لیکن وہ ایک عرصہ تک اس حقیقت سے لاعلم رہے کہ وہ جس براعظم کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں وہ اصل میں اس کے اوپر سے ہی تو گزر رہے ہیں۔

زی لینڈیا کے وجود تک رسائی حاصل کرنے میں سب سے پہلی کاوش سکاٹش ماہر سر جیمز ہیکٹر کی شامل تھی، جنہوں نے 1895ء میں نیوزی لینڈ کے جنوبی ساحل پر جزیروں کی ایک پوری لڑی کا سروے کیا تھا، اس کے بعد 1995ء میں ارضیات کے ماہر امریکی بروس لوئینڈیک نے ایک بار پھر اس خطے کو مکمل براعظم سے تعبیر کیا اور اس کیلئے ’’زی لینڈیا‘‘ کا نام تجویز کیا۔

’’زی لینڈیا ‘‘غائب کیسے ہوا؟
ماہرین ارضیات کہتے ہیں کہ براعظم کی زیر زمین پرت عام طور پر 40 کلومیٹر گہرائی تک جاتی ہے جو سمندری پرت کے مقابلے میں نمایاں طور پر موٹی ہوتی ہے جس کی گہرائی لگ بھگ 10 کلومیٹر تک ہوتی ہے، چنانچہ گوڈوانا سے الگ ہونے پر تناؤ کا شکار ’’زی لینڈیا‘‘ پھیل گیا، تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی پرت 20 کلومیٹر تک نیچے پھیل گئی اور یہ مزید پتلا ہونے کی وجہ سے آخر کار ڈوب گیا اور سمندر میں ہی غائب ہوگیا۔

زی لینڈیا کا مستقبل کیا ہے؟
بی بی سی کے مطابق عام حالات میں اس رقبے کو براعظم کہا جاتا ہے جو پانی کی سطح سے اوپر ہو جبکہ ’’زی لینڈیا ‘‘کا صرف 6 فیصد حصہ پانی سے باہر ہے، یہی وہ نقطہ ہے جس کی وجہ سے ’’زی لینڈیا‘‘ شناخت کے سلسلے میں تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے، تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مجوزہ براعظم دیگر تقاضوں پر بہت حد تک پورا اترتا ہے۔

اگرچہ رسمی طور پر کوئی بھی ایسا سائنسی ادارہ نہیں ہے جو باقاعدہ طور پر براعظموں کی شناخت کی تصدیق جاری کر سکے، تاہم جہاں تک براعظموں کی پہچان کا عالمی معیار ہے اس کے مطابق ایک براعظم کیلئے کم ازکم ان خصوصیات کا حامل ہونا لازمی ہے۔

٭…عام سمندر سے اس کی تہہ موٹی ہو
٭…مخصوص اور مختلف ارضیاتی ساخت ہو
٭…اپنے ارد گرد کے علاقوں سے بلندی پر ہو
٭…علاقے کی واضح نشاندہی ہو۔

اگرچہ بیشتر سائنس دانوں اور ماہرین ارضیات کے مطابق ’’زی لینڈیا‘‘ میں ایک براعظم بننے کے تمام عوامل بدرجہ اتم موجود ہیں تاہم یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عالمی طور پر ’’زی لینڈیا‘‘ کو آٹھواں براعظم تسلیم کیا بھی جاتا ہے یا نہیں اور اگر تسلیم کر بھی لیا جاتا ہے تو کب۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔