اسلام آباد: (حریم جدون) ملک بھر میں غیر قانونی کال سینٹرز اور سافٹ ویئر ہاؤسز کے ذریعے شہریوں کے ساتھ ہونے والے آن لائن فراڈ کے کیسز میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے واضح کیا ہے کہ یہ ادارے اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔
پی ٹی اے کی دستاویزات کے مطابق پی ٹی اے کال سینٹرز اور سافٹ ویئر ہاؤسز کی رجسٹریشن یا ریگولیشن کا مجاز نہیں ہے اور سائبر کرائمز و آن لائن فراڈ کی تحقیقات اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں، یہ ذمہ داری فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور نیشنل سائبر کرائم کوآرڈینیشن اتھارٹی (NCCIA) کی ہے جو پیکا قانون کے تحت کارروائی کرتے ہیں۔
دستاویز کے مطابق پی ٹی اے نے الیکٹرانک فراڈ سے متعلقہ 13185 یو آر ایل لنکس بلاک کرنے کے لیے پراسیس کیے جن میں سے 13021 سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے بلاک کر دیئے گئے، فیس بک پر رپورٹ کیے گئے 1357 لنکس میں سے 1246 بلاک، 47 زیر جائزہ اور 64 مسترد کیے گئے ہیں اسی طرح انسٹا گرام کو رپورٹ کیے گئے 41 میں سے 39 لنکس بلاک ہوئے، ایک زیر جائزہ اور ایک مسترد ہوا، یوٹیوب پر رپورٹ کیے گئے 122 میں سے 99 لنکس بلاک، 8 زیر جائزہ اور 15 مسترد کیے گئے ہیں۔
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کو الیکٹرانک فراڈ سے متعلق 6 لنکس رپورٹ کیے گئے جن میں سے 5 بلاک اور ایک زیر جائزہ ہے، دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رپورٹ کیے گئے 11659 لنکس میں سے 11632 بلاک کیے گئے ہیں جس کے ساتھ پی ٹی اے کی جانب سے رپورٹ کیے گئے لنکس کی بلاکنگ کی مجموعی شرح 98.76 فیصد رہی۔
پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ وہ پیکا ایکٹ کے تحت صرف غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک یا ہٹاتا ہے جبکہ آن لائن فراڈ سے بچاؤ کے لیے عوامی آگاہی مہم مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے، کارروائی کے لیے ادارے ایس ای سی پی، این سی سی آئی اے اور سٹیٹ بینک کی سفارشات کی روشنی میں اقدامات کیے جاتے ہیں۔