لاہور: (مفتی محمد وقاص رفیع) اسلام کے پانچ بڑے ارکان ( کلمہ ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ) جیسے فرائض کے بعد حلال مال کمانا فرض ہے، یہ صرف اُس شخص کے ذمہ فرض ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ضروری خرچ کیلئے مال کا محتاج ہو۔
باقی وہ شخص جس کے پاس ضرورت کے بقدر مال موجود ہو مثلاً وہ صاحب جائیداد ہے یا کسی اور طرح سے اُس کو مال میسر ہے تو اُس کے ذمہ یہ فرض نہیں رہتا، اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو ضرورتوں کے پورا کرنے کیلئے پیدا فرمایا ہے، تاکہ بندہ اپنی ضروری حاجتیں پوری کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جائے کیوں کہ رہنے سہنے، کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے بغیر صحیح طرح سے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں ہو سکتی، گویا اصل مقصود مال کمانا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یک سوئی سے مشغول ہونا مطلوب ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ انسانوں پر اپنا احسان بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہم نے دن کمائی کرنے کیلئے بنایا‘‘ (سورۃ النبا: 11)، دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہم نے زمین میں تم کو جگہ دی اور اُس میں تمہارے لئے روزیاں مقرر کر دیں، تم بہت کم شکر کرتے ہو‘‘ (سورۃ الاعراف :10)، ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’کتنے لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کا فضل (یعنی رزق) ڈھونڈنے کیلئے پھریں گے‘‘ (سورۃ المزمل: 20)،ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو‘‘(سورۃ الجمعہ:10)۔
شریعتِ اسلام نے کسبِ حلال کو عبادات میں شمار فرمایا ہے اور اس کے بے شمار فضائل بتلائے ہیں، حضرت انس بن مالکؓ سے منقول ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی:8610)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا (دیگر) فرائض (کی ادائیگی) کے بعد فرض ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: 9993)
حضرت ابو سعید خدریؓ حضورِ اقدسﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس آدمی نے بھی حلال مال کما کر خود اپنے کھانے اور پہننے میں خرچ کیا یا اپنے علاوہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی دوسرے کو کھلایا یا پہنایا تو یہ بھی اُس کیلئے صدقہ ہوگا۔(صحیح ابن حبان:4236)
حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے نہیں کھایا اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے‘‘ (صحیح بخاری: 2072)۔
اِس سے معلوم ہوا کہ مطلق مال کمانا فرض اور واجب عبادت نہیں، بلکہ حلال اور جائز طریقے سے مال کمانا عبادت ہے، حرام یا مشتبہ مال کمانا عبادت تو کجا اُلٹا سخت گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، لیکن افسوس کہ آج کل لوگ مال کمانے کی حرص میں اِس بات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے کہ حلال طریقے سے کما رہے ہیں یا حرام طریقے سے، آج کل تو لوگ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور دو نمبری کے ذریعہ مال کمانے کو کمالِ ہنر سمجھتے ہیں اور اسے اپنی ہوشیاری و چالاکی خیال کرتے ہیں، حقیقت میں یہ دوسروں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہی دھوکہ فریب ہے اور ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ کا مصداق ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے مؤمن بندوں کو دیا ہے کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اُس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ! اس کے بعد حضورﷺ نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہوا ہو، آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر یا رب یا رب کہتا ہو، اُس کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا حرام ہو، اُس کا پہننا حرام ہو، تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعاء کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم:1015، جامع ترمذی: 2989)
مؤرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ’’مستجاب الدعا‘‘ لوگوں کی ایک جماعت تھی، جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا، اُس کیلئے بد دعا کرتے، وہ ہلاک ہو جاتا، حجاج ظاہم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں ان حضرات کو خاص طور سے شریک کیا، جب کھانے سے فارغ ہو چکے تو اُس نے کہا کہ میں ان لوگوں کی بد دعا سے محفوظ ہوگیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ میں داخل ہوگئی۔ (فضائل رمضان: 29)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے عرض کیا کہ: ’’یارسول اللہ ﷺ میرے لئے دُعاء کیجئے کہ میں ’’مستجاب الدعوات‘‘ ہو جاؤں!‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ: ’’اپنے کھانے کو پاک کرو!‘‘ اللہ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اللہ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا، جس شخص کا بدن حرام مال سے بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اور کچھ بھی نہیں ہے‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی: 6495)
اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبادات اور نیک کاموں کے کرنے اور گناہوں اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق ملنے میں بھی حلال اور پاکیزہ کمائی کو بڑا دخل ہے، اسی طرح حلال اور پاکیزہ کمائی سے انسان کو جو راحت و سکون اور آرام نصیب ہوتا ہے وہ حرام کی کمائی اور ناجائز کمائی سے کسی بھی طرح حاصل نہیں ہوسکتا۔
لہٰذا حرام اور ناجائز کمائی کے تمام راستوں (جوا، سود، رشوت، جھوٹ، دھوکہ ،فریب وغیرہ جملہ طریقوں سے اپنے آپ کو بچا کر حلال اور جائز کمائی سے پاکیزہ مال کما کر دُنیا و آخرت کی حقیقی خوشیاں و کامیابیاں اور اُن کا راحت و آرام اور سکون حاصل کر کے زندگی گزارنا در حقیقت زندگی کا صحیح معنوں میں اصل لطف و مزہ ہے۔
مفتی محمد وقاص رفیع بطور اسلامک ریسرچ اسکالر ’’الندوہ‘‘ ایجوکیشنل ٹرسٹ اسلام آباد سے وابستہ ہیں۔