ٹریپولی : (ویب ڈیسک) العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق لیبیا کے سابق مطلق العنان حکمراں مقتول کرنل معمر قذافی کے دورِ حکومت میں اربوں ڈالرز بیرون ملک بنکوں میں سرمایہ کاری یا دوسرے عنوانات سے جمع کرائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قذافی حکومت کے خلاف 2011ء میں عوامی احتجاجی تحریک برپا ہونے کے بعد یہ تمام اثاثے منجمد کردیے تھے۔
لیکن کسی کو ان اثاثوں کی مالیت کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا تاآنکہ بیلجیئم کے ایک بنک نے ان منجمد اثاثوں پر سود کی رقم جاری کی ہے اور اس سے اس یورپی ملک میں لیبیا کی منجمد کی گئی اربوں ڈالرز کی رقوم کا بھی پتا چلا ہے۔
لیبیا کی سرمایہ کاری کارپوریشن بیرون ملک ان اثاثوں کے انتظام کی ذمے دار ہے۔جریدے پولیٹکو کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے پانچ رکن ممالک نے معمر قذافی کے منجمد اکاؤنٹس میں سے سود کی مد میں رقم ادا کی ہے۔ برسلز میں واقع ایک بنک ’’ یورو کلئیر‘‘ سے لیبیا کے ایک منجمد اکاؤنٹ سے سود کی مد میں رقم کی ادائی کے بعد سے بیلجیئم میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے کہ یہ رقم کس کو ادا کی گئی ہے؟
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بیلجیئم سمیت پانچ یورپی ممالک اقوام متحدہ کی لیبیا پر ماضی میں عاید کردہ پابندیوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وہ اپنے بنکوں میں جمع شدہ رقوم کو اپنے استعمال میں لارہے ہیں اور انھوں نے اس کی تفصیل بھی نہیں بتائی کہ ان کی مالیت کیا ہے۔
جریدے کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ ، بیلجیئم ، جرمنی ، اٹلی اور لکسمبرگ میں قذافی حکومت کے اثاثے منجمد کیے گئے تھے ۔ان ممالک کے قانون کے مطابق منجمد کردہ رقوم پر سود یا حصص پر منافع منجمد نہیں ہوتا ہے اور صرف اصل رقم ہی اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نتیجے میں منجمد کی جاتی ہے۔
بیلجیئم کے بنک ’’ یورو کلئیر‘‘ نے منجمد فنڈز پر سود کی رقم لیبیا کی سرمایہ کاری کارپوریش کے لکسمبرگ اور برطانیہ میں واقع بنک کھاتوں میں منتقل کی گئی ہے لیکن آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یہ رقم کس نے وصول کی ہے؟ لیبیا کے اس ادارے نے سودی رقوم کی وصولی کی تصدیق کی ہے لیکن اس نے اس کی کوئی دوٹوک وضاحت جاری نہیں کی ہے۔
لیبیا کی سرکاری سرمایہ کاری کارپوریشن کے اکاؤنٹس میں 2011ء سے 2017ء تک ایک ارب ڈالرز سے زیادہ کی رقم سود کی مدد میں منتقل کی گئی تھی۔ تاہم اس ادارے کے ایک سابق افسر علی الشامخ نے العربیہ سے گفتگو میں اس رقم کی منتقلی کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے خود اس حوالے سے میڈیا میں رپورٹس دیکھی ہیں جس سے کسی ایک سوالات نے جنم لیا ہے۔
لیبیا کی پارلیمان کی مالیاتی کمیٹی کے ایک رکن عبدالسلام نیسیہ کا کہنا ہے : ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایشو رائے عامہ اور قومی سلامتی کا ایک معاملہ بن چکا ہے مگر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ بیلجیئم میں تو لیبیا کے ان فنڈز کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہے لیکن اس رقم کے مالک نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔بالخصوص ایسی صورت حال میں جب ان فنڈز کے غلط استعمال کی بھی اطلاعات منظرعام پر آرہی ہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا :’’ ہمیں یہ جاننے میں کوئی غرض نہیں کہ یہ فنڈز کیسے جاری کیے گئے تھے بلکہ ہمیں اس بات میں دلچسپی ہے کہ اس رقم کو کیسے صرف کیا گیا ہے‘‘۔انھوں نے لیبیا کے اٹارنی جنرل سے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس رقم سے فائدہ اٹھانے والوں کے نام سامنے لائے جاسکیں۔
لیبیا کے ان فنڈز کو تو اقوام متحدہ کی ایک قرار داد کے تحت منجمد کیا گیا تھا لیکن حال ہی میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ ان رقوم سے بعض فریق قذافی حکومت کی ’’ مالیاتی سلطنت‘‘ سے ابھی تک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ان سے برطانیہ ایسے ملک نے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اس نے اس رقم کو اینٹھنے کے لیے ازخود ہی ایک قانون جاری کردیا تھا جس کے تحت وہ لیبیا کے منجمد اثاثوں کو آئرش آرمی کی مسلح کارروائیوں سے متاثرہ افراد کو معاوضہ ادا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اس کا جواز یہ تراشا گیا کہ معمر قذافی آئرش آرمی کی حمایت کرتے رہے تھے۔
لیبیا کے ایک ماہر معیشت اور اسٹاک مارکیٹ کے بانی سلیمان الشاہونی نے بیرون ملک لیبیا کے منجمد اکاؤنٹس کے بارے میں بین الاقوامی جائزے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ لیبیا کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے دستیاب ہوسکیں کیونکہ ان کے بہ قول لیبیا سرمایہ کاری کارپوریشن کے متنازعہ بیانات سے ایک ابہام پیدا ہوچکا ہے۔اس لیے اس تمام معاملے کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔