لاہور:(روزنامہ دنیا) مطالعے کا معیار بہتر بنانے اور اچھے نتائج پانے کی خواہش تمام طلبہ کرتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی کے بعد بھی عموماً مطالعہ جاری رہتا ہے اور جو افراد مطالعہ بہتر کرنے کے گُروں سے واقف ہوتے ہیں یا غیرارادی طور پر ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں، زیادہ اخذ کرتے ہیں۔ مطالعہ ہر میدان سے وابستہ افراد کے لیے مفید ہے۔ اس سے ذہنی استعداد و قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے، معلومات بڑھتی ہیں اور وسیع النظری پیداہوتی ہے۔
کام کوئی بھی ہو باقاعدگی اور مستقل مزاجی کامیابی کے امکانات بڑھا دیتی ہے۔ مشکل سے مشکل کام بھی استقامت کے ساتھ کیا جائے تو ایک کے بعد دوسری رکاوٹ دور ہونے لگتی ہے۔ اسی اصول کو مطالعے پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔کچھ لوگ اس طرح مطالعہ کرتے ہیں گویا وقت ضائع کر رہے ہوں۔ دل جمعی اور حاضر دماغی کے بغیر مطالعہ وقت کا ضیاع ہی تو ہے۔مطالعے کے لیے سب سے پہلے علیحدہ اور پُرسکون ماحول کو یقینی بنائیں۔ ایسا ماحول جس میں شور نہ ہو، روشنی مناسب ہو، درجہ حرارت بہت زیادہ یا کم نہ ہو اور بیٹھنا (اور بعض اوقات لیٹنا) تکلیف دہ نہ ہو۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اگر ماحول پُرسکون ہو تو مطالعہ زیادہ توجہ کے ساتھ ہوتا ہے، نیز یہ زیادہ دیر تک کیا جا سکتا ہے۔ اگر مطالعہ کے لیے علیحدہ کمرہ میسر ہو تو بہت خوب! کچھ چیزیں توجہ کے ارتکاز کو متاثر کرتی ہیں۔ عموماً توجہ ہٹانے کی سب سے بڑی وجہ شور کو سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر بند آواز کے ساتھ بھی ٹیلی ویژن یا موبائل کی سکرین آن ہو تو نظروں کا بار بار اس جانب اٹھنا عین ممکن ہے۔ بعض کتب یا موضوع اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ دوران مطالعہ وقت کا پتا ہی نہیں چلتا لیکن عام طور پر مطالعے کے دوران وقفوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اس سے آپ کے ذہن، اعضا اور آنکھوں پر بلاوجہ بوجھ نہیں پڑتا۔ مطالعہ منصوبہ بندی سے کرنا چاہیے، ضروری نہیں کہ آپ کوئی ایک وقت متعین کر لیں جیسے آٹھ سے 11 بجے شام۔ یہ بھی طے کیا جا سکتا ہے کہ روزانہ کتنے گھنٹے پڑھنا ہے۔ وقت کو حصوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ متعین وقت زیادہ بہتر رہتا ہے لیکن بعض افراد کا مزاج اس سے میل نہیں کھاتا۔ مطالعہ کا آغاز کرنے سے پہلے مقصد طے کر لینا چاہیے۔
ایک باب پڑھنا ہے یا نصف، اس کا تعین زیادہ آسانی پیدا کرے گا۔ ہر ایک سطرکو یاد رکھنا تقریباً ناممکن اور غیر ضروری ہوتا ہے۔ البتہ کسی باب کے اہم الفاظ، جملوں یا مرکزی خیال کو ذہن نشین لازماً کیجیے۔ ایک خلاصہ آپ کے ذہن میں ہونا چاہیے، اسے لکھ لینا بہتر ہے۔ مطالعے کو بوجھ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس سے محظوظ ہونے سے قاصر رہتے ہیں۔ بالخصوص وہ نسل جسے سکول کی زندگی میں سزائیں زیادہ ملیں، مطالعہ سے لاشعوری طور پر خوف زدہ رہتی ہے۔ مطالعہ کرنے کے لیے اسے پُرلطف بنانا ضروری ہے۔ دورانِ مطالعہ توجہ مرکوز کرنے کے لیے کچھ شعوری کوشش بھی درکار ہوتی ہے۔ اگر آپ کا ذہن پہلے سے کسی مسئلے میں الجھا ہے تو اسے جھٹک دیں، یا حل کر لیں
۔ فٹ بال یا کرکٹ کھیلنے یا دیکھنے کو دل چاہ رہا ہے تو فیصلہ کیجیے۔ اگر مطالعہ زیادہ اہم ہے پھر دوسرے کاموں کے خیالات کو ذہن سے نکال باہر کیجیے ورنہ دوران مطالعہ ذہن منتشر ہو گا اور مطالعہ ایک بے کار سرگرمی بن کر رہ جائے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض اوقات مطالعہ ذہنی الجھنوں سے فرار کا اچھا ذریعہ بن جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کوئی اچھی کہانی مضطرب ذہن کو کچھ ہی لمحوں میں یک سو کر دے۔ عام حالات میں طالب علم کو مشکل مضمون پہلے پڑھنا چاہیے کیونکہ اس کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور مطالعے کے آغاز پر یہ زیادہ میسر ہوتی ہے۔
جو طالب علم وقت کے ساتھ پڑھائی نہیں کرتے انہیں آخر میں مشکل ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اپنے آپ کو کوسنے کی ضرورت نہیں۔ جو وقت رہ گیا ہے اسے زیادہ اچھے انداز میں صَرف کرنا چاہیے۔ دوسروں سے بلاوجہ تقابل بھی نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ مطالعہ کے وقت آپ کے پاس وہ سب کچھ ہونا چاہیے جس کی آپ کو ضرورت پیش آ سکتی ہے اور کوئی غیر ضروری شے نہیں ہونی چاہیے۔ مثلاً سمارٹ فون کی ضرورت نہیں تو اسے کہیں دور رکھ چھوڑیں۔ مطالعے کے بعد یا اس سے پہلے سمارٹ فون کو حافظہ بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسی گیمز موجود ہیں جن میں حافظے اور حاضر دماغی کی مشق ہوتی ہے، وہ مفید رہتی ہیں۔ آپ طالب علم ہوں، کاروبار کرتے ہوں یا ملازم پیشہ ہوں مطالعے کو زندگی کا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ کام اور شخصیت دونوں میں نکھار لاتا ہے۔
تحریر: رضوان عطا