ٹائٹینک کے بارے جو آپ نہیں جانتے

Last Updated On 11 August,2019 05:46 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) ٹائٹینک نامور مسافر بردار برطانوی بحری جہاز تھا جو 1912ء میں شمالی بحرِ اوقیانوس میں بہت بڑے حادثے کی نذر ہو کر ڈوب گیا۔ آئیے اس بارے میں چند حیران کن باتیں جانتے ہیں۔

ٹائٹینک کے ڈوبنے سے 1500 افراد ہلاک ہوئے لیکن صرف 337 لاشیں نکالی جا سکیں۔

برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد ٹائٹینک کو ڈوبنے میں دو گھنٹے 40 منٹ لگے۔

اسے ڈبونے والا برف کا تودہ 100 فٹ لمبا تھا اور گرین لینڈ کے ایک گلیشیئر سے ٹوٹ کر آیا تھا۔

ٹائٹینک 6598 کوئلہ نیویارک لے جا رہا تھا۔

بحری جہاز پر موجود موسیقار ڈوبتے ہوئے جہاز کے مسافروں کو پُرسکون رکھنے کے لیے موسیقی کی دھنیں سناتے سناتے خود بھی ڈوب گئے۔

بحری جہاز کے 35 انجینئرنگ سٹاف میں سے کوئی نہیں بچا کیونکہ تمام آخری وقت تک جہاز کو چلانے کی کوشش کرتے رہے تاکہ اسے ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔

ٹائٹینک کو تلاش کرنے میں 70 برس لگے۔

ٹائٹینک کا ملبہ 12,500 فٹ گہرائی سے ملا۔

1912ء میں ٹائٹینک اپنی تکمیل پر دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا۔

اس وقت انسان کی بنائی گئی کوئی دوسری اتنی بڑی متحرک شے نہیں تھی، اس کی تعمیر آئرلینڈ میں ہوئی۔

اس پر سوار 12 کتوں میں سے صرف تین بچ پائے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس بحری جہاز کا ملبہ 2030ء تک بیکٹیریا کے کھانے کے باعث گل جائے گا۔

ڈوبنے کے بعد بیشتر افراد 15 سے 30 منٹ میں دل کے دورے سے ہلاک ہو گئے۔

یہ جہاز روزانہ 600 ٹن کوئلہ جلاتا تھا اور 24 گھنٹوں میں 100 ٹن راکھ سمندر میں پھینکتا تھا۔

برف کے تودے کو دیکھنے اور اس سے ٹکرانے میں صرف 37 سیکنڈ لگے۔

جہاز کے کیپٹن کے آخری الفاظ تھے: ’’اچھا لڑکو، تم نے اپنا فرض نبھا لیا اور وہ بھی اچھی طرح، میں تمہیں مزید کچھ نہیں کہوں گا، تم سمندر کے قواعد جانتے ہو، اب ہر کوئی اپنا ذمہ دار خود ہے، تم پر خدا کی رحمت ہو۔‘‘

اپنے چار روزہ سفر کے دوران ٹائٹینک کو برف کے تودے کی وارننگ چھ بار دی گئی۔

ٹائٹینک میں واحد جاپانی فرد ماسابومی ہوسونو تھا، جہاز کے ڈوبنے پر وہ بچ نکلا، جاپانی حکومت نے جہاز کے ساتھ نہ ڈوبنے پر اس کی مذمت کی۔

جہاز میں سوار سب سے امیر آدمی جون جیکب اسٹرچہارم تھا۔ اس کی دولت 150 ملین ڈالر تھی جو آج کے حساب سے ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد بنتے ہیں۔

فرسٹ کلاس کی صرف چار مسافر خواتین ہلاک ہوئیں جبکہ تھرڈ کلاس کی 89 ماری گئیں۔

اس کے کارگو کی سب سے قیمتی شے میری جوزف بلونڈل کی پینٹنگLa Circassienne au Bain تھی۔

ٹائٹینک کے ڈوبنے کے بعد بحری سفر کو محفوظ بنانے کے لیے 1913ء میں پہلے ’’انٹرنیشنل کنونشن آف لائف ایٹ سی‘‘ کا اہتمام کیا گیا۔

اس میں مطالبہ کیا گیا کہ بحری جہاز کے ہر مسافر کے لیے لائف بوٹ میں جگہ ہونی چاہیے اور اس کی مشق کرائی جانی چاہیے۔

(وردہ بلوچ کی یہ تحریر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی)