گھر چلانے کیلئے عورت ’مرد‘ بن گئی

Last Updated On 13 February,2020 11:42 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک عورت نے اپنا گھر چلانے کے لیے ’مرد‘ جیسا حلیہ اپنا لیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مرد جیسا حلیہ اپنانے والی عورت کا نام فرحین اشتیاق ہے، اس عورت کی عمر 41 سال ہے اور وہ اکیلے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہے۔ اس عورت کی دکان پاکستان کے ہر دلعزیز شہر لاہور کے نواحی علاقے انار کلی بازار میں ہے جہاں پر ہر روز وہ ’مرد‘ والا حلیہ اپنا کر روزانہ صبح گھر سے نکلتی ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق عورت کی طرف سے مرد والا حلیہ اپنانے کی سب سے بڑی وجہ تنقید سے بچنا ہے کہ ایک عورت اتنے بڑے بازار (انارکلی) میں کیسے دکان چلا رہی ہے یا پھر روایتی طور پر بازاروں میں خواتین کو دیکھ کر سیٹیاں بجا کر تنگ ہونے سے بچنا ہے۔

11 فروری کو اس خاتون (فرحین اشتیاق) کی دکان کافی مشہور ہو گئی ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر سب کو پتہ چل گیا ہے کہ یہ دکان ایک خاتون چلا رہی ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق فرحین اشتیاق کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے ہے، اس عورت کا سوائے نو سالہ بچی کے علاوہ کوئی بھی رشتہ دار نہیں۔ وہ اکیلے ہی اپنے بیٹی کی پرورش کرتی ہے۔

فرحین اشتیاق نے خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ایک ایسے شخص سے شادی کی تھی جس کے لیے میرے والدین اور گھر والے تیار نہیں تھے، 2010ء میں نے ایسے لڑکے سے شادی کی تھی جس کا تعلق ہماری برادری سے نہیں تھا۔ اس ایک فیصلے نے میری زندگی بدل دی۔ یہ میرے لیے بہت مشکل ترین فیصلہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے کے بعد میں امید سے ہوئی تو میرے شوہر مجھے چھوڑ کر چلے گئے، میرے شوہر یہ جانتے ہوئے کہ میں ماں بننے والی ہوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میں جب بیٹی کی ماں بنی تھی تو میرے پاس کوئی بھی نہیں تھا نہ میرے گھر والے اور نہ ہی میرے شوہر۔ جب میں آپریشن روم میں داخل ہوئی تو میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ اگر میں دورانِ آپریشن انتقال کر گئی تو میری بیٹی کومیرے والدین تک پہنچا دینا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق جب فرحین اشتیاق کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تو اس کا نام ردا زہرا رکھا اور فرحین اشتیاق نے اس وقت فیصلہ کیا کہ میں ماضی کو نہیں دیکھوں گی اور بیٹی کی بہتر پرورش کے لیے مستقل کا انتخاب کروں گی۔ اس وقت ردا زہرا کی عمر نو سال ہے۔

انٹرویو کے دوران فرحین اشتیاق کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت میرا صرف اور صرف دھیان میری بیٹی کی پرورش پر ہے اور چاہتی ہوں کہ اپنی بیٹی کا مستقبل بہتر بنا سکوں۔ ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ میری دوست کا تعلق میرے گھر سے دور ملتان سے تھا اور بیٹی کے بہتر مستقبل کے لیے بیٹی کو اپنے دوست کے حوالے کیا اس وقت میری بیٹی چھوٹی عمر کی تھی اور میں اس دوران ہوٹل پر نوکری کرتی تھی۔

خاتون کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران ایسا بھی ہوا کہ میری دوست نے میری بیٹی کی پرورش سے ہاتھ اُٹھا لیا جس کے بعد میں نے پختہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھ لیا، اس دوران میں نے بیٹی کی پرورش کے ساتھ ساتھ اپنا کام ساتھ جاری رکھا۔ اسی دوران میرا رابطہ میرے گھر والوں سے ہوا اس کے باوجود انہوں نے مجھے قبول نہیں کیا لیکن میں نے اپنے والدین کو کہا کہ آپ لوگ مجھے قبول نہ کریں تاہم اپنی نواسی کا تو خیال رکھیں۔ اس دوران میرے والدین نے میری بیٹی کا چار سال تک خیال رکھا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق اس دوران فرحین اشتیاق نے فیصلہ کیا کہ پیسوں کے مسئلے سے جان چھڑانے کے لیے کوئی مستقل حل نکالا جائے جس کے لیے میں نے کراچی سے لاہور کا رُخ کیا۔ اسی دوران مجھے کسی نے بتایا کہ لاہور میں ایک ہاسٹل ہے جہاں پر خواتین کو رہائش رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے، اسی دوران میں نے فیصلہ کیا کہ میں وہاں جاؤں گی اور اپنی بیٹی کو ساتھ لے جاؤں گی، کیونکہ یہ جگہ ہر لحاظ سے محفوظ تھی۔

انٹرویو کے دوران انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں کسی خاتون کا اکیلا رہنا بہت مشکل ہے، تاہم اسی دوران میں نے فیصلہ کیا اور اپنی بیٹی کو ساتھ لیکر شہر قائد سے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور منتقل ہو گئی۔ اس دوران نئے شہر میں مجھے بہت سارے مسائل ملے۔ کیونکہ شہر نیا تھا اور یہاں سکونت کے لیے بہت مشکل وقت گزارنا پڑا۔ اس کے لیے میں نے انار کلی بازار کے قریب رہائش اختیار کی کیونکہ انار کلی بازار گنجان آباد ہے اور بہت سارے لوگوں کی یہاں آمدورفت ہوتی ہے۔

فرحین اشتیاق کا کہنا تھا کہ شروع پر میں نے ایک دکان پر نوکری کی یہ نوکری ایک سموسوں کی دکان پر تھی جہاں پر میں پیکنگ کرتی تھی، یہ ایسی جگہ تھی جہاں پر ایک عورت آسانی سے نوکری نہیں کر سکتی تھی۔

خبر رساں ادارے کو انہوں نے بتایا کہ اسی دوران میں نے فیصلہ کیا کیوں نہ میں اپنا حلیہ تبدیل کر لوں، اسی پر میں نے فیصلہ کر لیا اور اپنا حلیہ تبدیل کر لیا اور روزانہ صبح کام کرنے سے نکلنے پر میں مردوں والا حلیہ اپنا لیتی ہوں۔ اسی دوران میں نے اپنا نام فرضی نام بھی رکھ لیا۔ میں نے اپنا فرضی نام علی رکھا۔

فرحین اشتیاق کا کہنا تھا کہ اسی دوران میں نے کچھ پیسے جمع کیے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ایک دکان کھولی، میں ایسی دکان چاہتی تھی جہاں پر میری بیٹی ساتھ ہو کیونکہ میں اپنی بیٹی کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی تھی، میری بیٹی سکول جاتی ہے اور سکول جانے کے بعد واپسی میری دکان پر آ جاتی ہے۔ میری بیٹی نے آج تک مجھ سے نہیں پوچھا کہ میں مردوں والا حلیہ کیوں اپناتی ہوں اور وہ بہتر جانتی ہے میں نے ایسا کیوں کیا۔

انٹرویو کے دوران فرحین اشتیاق کا کہنا تھا کہ میں فراغت کے لمحات میں نجی کمپنی کی موٹر سائیکل چلاتی ہوں، اس موٹر سائیکل پر میں لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر چھوڑنے کی خدمات انجام دیتی ہوں۔ یہ خدمات زیادہ تر خواتین کے لیے ہوتی ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق سوشل میڈیا پر جب سے یہ خبر سامنے آئی ہے ہر کوئی اس خاتون (فرحین اشتیاق) کو داد دے رہا ہے۔