بنکاک: (ویب ڈیسک) تھائی لینڈ کا شہر لوپبوری ایک ایسا انوکھا علاقہ ہے جہاں انسانوں سے زیادہ بندروں کا زور چلتا ہے۔ بندروں کے غول یہاں سڑکوں اور گلیوں میں آزادانہ پھرتے ہیں اور گینگ بنا کر جھگڑے بھی کرتے ہیں۔
لوپبوری کے کچھ مقامات پر بندروں کا اتنا کنٹرول ہے کہ وہ انسانوں کے لیے نو گو ایریا بن گئے ہیں۔ وہاں جانے والے انسانوں پر بندر حملہ کرتے ہیں اور انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
یہاں کے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ایک پنجرے میں محسوس کرتے ہیں جس میں انہیں بندروں نے قید کر رکھا ہے۔
لوپبوری ایک قدیم شہر ہے جو 13ویں صدی میں آباد ہوا تھا۔ کلجیرہ نامی ایک خاتون لوپبوری کی رہائشی ہیں جو شہر میں بندروں کے راج سے پریشان ہیں۔
اپنے گھر کے ٹیرس کے اوپر لگے جال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ یہاں ہم پنجروں میں قید ہیں جب کہ بندر باہر آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کلجیرہ نے کہا کہ یہ بندر ہر جگہ گندگی کرتے ہیں اور فضلہ پھیلاتے ہیں۔ جب بارش ہوجائے تو گندگی اور بدبو سے شہریوں کا برا حال ہو جاتا ہے۔
لوپبوری میں پراگ سام یود نامی ایک تاریخی مندر ہے جو بدھ مت کے ماننے والوں کا ہے۔ لیکن یہ جگہ اب بندروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ مندر اور اس کے آس پاس کے علاقے پر بندروں کا زور ہے۔ درجنوں کی تعداد میں بندر یہاں گھروں کی دیواروں اور گلیوں میں گشت کرتے ہیں اور اچھلتے کودتے دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن اپنی اسی انفرادیت کی وجہ سے یہ علاقہ سیاحوں میں مقبول ہے۔ کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل یہاں بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے اور بندروں کے ساتھ سیلفیاں کھنچوا کر انہیں خوراک دے جاتے تھے۔ لیکن کرونا وائرس کے باعث سیاحوں کی آمد ختم ہوئی تو بندروں کے لیے خوراک کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔
خوراک کی کمی کے باعث بندروں کے رویوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور یہ لڑائی جھگڑوں پر اتر آئے۔ بندروں کا پرتشدد رویہ دیکھتے ہوئے حکومت اب ان کی آبادی روکنے کی مہم چلا رہی ہے جس کے تحت بندروں کی نس بندی کی جا رہی ہے۔
لوپبوری میں بندروں کی نس بندی کا پروگرام تین سال سے رکا ہوا تھا اور ان تین برسوں میں یہاں بندروں کی تعداد دوگنا ہو کر چھ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
یہ بندر شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لہٰذا کچھ مقامی افراد بندروں کے جھگڑوں سے بچنے کے لیے انہیں خود ہی خوراک پہنچا دیتے ہیں۔
لوپبوری میں ایک سنیما کی پرانی عمارت پر بندروں کا قبضہ ہے جسے انہوں نے اپنا ہیڈ کوارٹر اور قبرستان بنایا ہوا ہے۔ مر جانے والے بندروں کو ان کے ساتھی سنیما کے پروجیکشن روم میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر اس عمارت میں کوئی انسان داخل ہونے کی کوشش کرے تو بندر اس پر حملہ کرتے ہیں۔
اس سنیما کے قریب ہی ایک دکان دار نے بندروں کو ڈرانے اور اپنی دکان سے دور رکھنے کے لیے شیر اور مگر مچھوں کے مجسمے دکان کے باہر سجائے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ بندر اکثر ان کی دکان سے پینٹ کے ڈبے اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں۔
دکان دار کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بندر انہیں بہت پریشان کرتے ہیں لیکن اگر یہ یہاں سے چلے جائیں گے تو وہ بندروں کو بہت یاد کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں انہیں گلیوں میں گھومتے اور کھیلتے دیکھنے کا عادی ہو گیا ہوں۔ اگر یہ بندر یہاں سے چلے گئے تو میں خود کو تنہا محسوس کروں گا۔
بندروں کی نس بندی کا پروگرام لوپبوری میں محکمۂ جنگلی حیات نے دوبارہ شروع کیا ہے۔ محکمۂ جنگلی حیات کے ملازمین بندروں کو خوراک اور پھلوں کا لالچ دے کر انہیں پنجرے میں بند کرتے ہیں اور ایک کلینک میں لے جاتے ہیں۔
حکام کے مطابق بندروں کو بے ہوش کر کے نس بندی کرنے کے بعد ان کے جسم پر ایک ٹیٹو بنا دیا جاتا ہے تاکہ ان کی نشان دہی ہو سکے۔
حکام نے ہدف مقرر کیا ہے کہ وہ اگلے چند روز میں 500 بندروں کے آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن نس بندی کا یہ پروگرام بندروں کی آبادی روکنے کے لیے شاید کافی نہ ہو۔ اس لیے محکمۂ جنگلی حیات نے ایک طویل المدتی منصوبہ بھی بنایا ہے جس کے تحت بندروں کے لیے شہر کے ایک اور علاقے میں رہائش گاہ تعمیر کی جائے گی۔