نیویارک: (ویب ڈیسک) امریکا میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے ریاضی کا 50 سال پرانا ایک سوال اپنے فالتو وقت میں ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں حل کر دیا ہے۔
لیزا پکاریلو نامی طالبہ یونیورسٹی آف ٹیکساس میں اپنے مقالے پر کام کر رہی تھیں جب انھوں نے کانوے ناٹ یا کانوے گانٹھ کا مسئلہ حل کیا۔ جب وہ یونیورسٹی میں ریاضی کے ماہر پروفیسر کیمرون گورڈن سے بات کر رہی تھیں تو انھوں نے بلا ارادہ اس مسئلہ کے متعلق اپنے حساب کا ذکر ان سے کیا۔
لیزا پکاریلو نے سائنسی خبروں کی ویب سائٹ قوانٹا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے زور سے کہا کہ تمھیں تو بہت خوش ہونا چاہئے۔ وہ تو جیسے دیوانے ہو گئے تھے۔
کانوے ناٹ کا مسئلہ سب سے پہلے برطانوی ریاضی دان جان ہورٹن کانوے نے 1970 میں پیش کیا تھا، مگر لیزا پکاریلو کو پہلی بار اس معمے کا علم سنہ 2018 میں ایک سمینار کے دوران ہوا تھا۔
پروفیسر گورڈن کا کہنا ہے کہ میرا نہیں خیال کہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ کتنا پرانا اور مشہور مسئلہ ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق لیزا پکاریلو کا مقالہ اس برس کے اوائل میں اینلز آف میتھمیٹکس نامی جریدے میں شائع ہوا اور اس مسئلہ کا حل نکالنے کے بعد سے ہی ان کا تقرر میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کر دیا گیا۔
سپین میں ریاضی کے ماہر اور محقق ہیویئر ارامیونا کا کہنا ہے کہ کانوے ناٹ کا مسئلہ طویل عرصے سے حل طلب تھا اور بہت سے ذہین ریاضی دانوں نے اسے حل کرنے کی کوشش کی تھی۔
میتھمیٹیکل ناٹس ریاضی کی ایک مخصوص شاخ کا موضوع ہے جو ٹوپولوجی یا علم مقامات کہلاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں ٹوپولوجی اشیا کے ٹوٹے بغیر ان کی شکل بگڑنے، مروڑنے اور تاننے کے بعد ان کے رویے کو جاننے کا علم ہے۔
ناٹ تھیوری یا نظریۂ گانٹھ ٹوپولوجی کی ایک شاخ ہے۔ عام زندگی کے برعکس ریاضی کی گانٹھ کے سرے آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ اس کی سادہ ترین مثال چھلے کی شکل ہے اور اسے کھولا نہیں جا سکتا۔ مگر یہ گرہ اپنے آپ میں تہہ در تہہ ہو کر پیچیدہ ہوتی چلی جاتی ہے۔
یونیورسٹی آف سیوائل میں ریاضی دان ماریتھانیا سِلورو کہتی ہیں کہ بس آپ ایک رسی کا تصور کریں اور سوچیں کہ اس میں ہم کیسے کیسے بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسی کو کیسے موڑا جا سکتا ہے، کیسے دہرا کیا جا سکتا ہے، تہہ کیا جا سکتا ہے، کھینچا جا سکتا ہے، دبایا جا سکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بس ہم رسی کو کاٹ نہیں سکتے۔ ایسا کرنا بالکل منع ہے۔
ٹوپولوجی کا اطلاق سائنس کے کئی شعبوں میں کیا جاتا ہے جن میں اقتصادی بازاروں کے رجحانات سے لے کر حیاتیات میں ڈی این اے کے مالیکیولز (سالمے) کی ساخت تک کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
کانوے ناٹ کا مسئلہ پیش کرنے والے جان ہورٹن کونوے کا انتقال اس برس اپریل میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہوا تھا۔ وہ 82 برس کے تھے۔ انھوں نے ریاضی میں بہت کام کیا اور شہرت کمائی۔
وہ کیمبرج اور پرنسٹن یونیورسٹی جیسی اہم درسگاہوں سے بھی وابستہ رہے۔ ان کی سوانح نگار شیوان رابرٹس کہتی ہیں کہ ’وہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ چاہے جانے والے خود پرست تھے۔‘
لیزا پکاریلو نے کانوے ناٹ کی طرز پر، جو 11 مقامات پر آر پار ہوتی یا مڑتی ہے، خود ایک گانٹھ بنائی جسے ’جڑواں گرہ‘ کہتے ہیں۔ اسے سمجھنا قدرے آسان تھا۔ اس کا حل ڈھونڈے کے بعد وہ اس کا اطلاق کانوے ناٹ پر کر سکتی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ میں دن کے اوقات میں اس پر کام نہیں کرتی تھی کیونکہ میرے خیال میں یہ حقیقی ریاضی نہیں تھی۔ میں اسے ہوم ورک سمجھ کر کرتی تھی۔ بس میں گھر جاتی اور اس پر کام کرنا شروع کر دیتی۔
لیزا پکاریلو امریکا کی سب سے زیادہ دیہی ریاست ’مین‘ میں پیدا ہوئیں اور باسٹن کالج میں ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ سنہ 2013 میں جب وہ اعلیٰ ثانوی جماعت میں زیر تعلیم تھیں تو انھوں نے وظیفے کے لیے نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے مقابلے کا امتحان دیا جس میں وہ کامیاب رہیں۔
لیزا پکاریلو کی ایک استاد ایلیسینڈا گرِبسی نے باسٹن کالج کے اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب لیزا نے ریاضی کے مضمون کی تعلیم شروع کی تو انھیں ناٹ تھیوری کا بالکل علم نہیں تھا اور الجبرا کی سمجھ بھی بہت بنیادی سطح کی تھی۔ مگر ہفتے بھر میں انھوں نے کامیابی سے سوال حل کرنا شروع کر دیے جس سے بہت سے طلبہ کو تکلیف بھی ہوئی۔
لیزا کے کانونے ناٹ یا گرہ کو کامیابی کے ساتھ سلجھا لینے سے ہو سکتا ہے کہ دوسری خواتین میں بھی ریاضی پڑھنے کا شوق جاگے، جہاں صنفی فرق بہت زیادہ ہے۔
امریکہ محکمہ لیبر کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں صرف 26 فیصد خواتین کمپیوٹر یا ریاضی کے شعبوں سے منسلک ہیں۔