ڈھاکا: (ویب ڈیسک) بنگلا دیش میں تیرتا ہوا ہسپتال سیلاب سے تباہ حال لوگوں کے لیے امید کی کرن بن گیا ہے۔ یہ ہسپتال فلاحی ادارے نے قائم کیا ہے۔ علاج کی غرض سے آنے والے افراد تو دلچسپی سے اسے دیکھتے ہی ہیں، عام لوگوں کے لیے بھی دیکھنا ایک دلچسپ مشغلہ بن گیا ہے۔
بنگلا دیش آب و ہوا کی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ ہر سال سیلاب سے ملک کے بڑے حصے میں تباہی ہوتی ہے۔ رواں سال جولائی کے آخر میں بھی سیلاب آیا اور جاتے جاتے تباہی کی داستان چھوڑ گیا۔ اس سیلاب سے ساحلی علاقوں میں لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ایسے میں خیراتی اداروں کے رضاکار ان کی مدد میں مصروف ہیں۔
جیسے ہی سیلابی پانی کم ہوا بدیانو ندو فاؤنڈیشن نامی فلاحی و امدادی ادارے نے مدد کے متلاشی افراد کے لیے ایک کشتی کرائے پر لینے کا فیصلہ کیا۔ تاکہ اس کشتی کے ذریعے لوگوں کو بنیادی طبی امداد فراہم کی جا سکے۔
کوسٹ گارڈز بھی کشتی کے لیے روٹ پلان لے کر آگے آئے۔ بالآخر کشتی ایک تیرتے ہوئے ہسپتال میں تبدیل ہو گئی جسے جیون کھیہ یا لائف بوٹ کہا جاتا ہے۔
فاونڈیشن کے عہدیدار منظور مرشد کا کہنا تھا کہ ہم امداد کے منتظر افراد کے پاس جانا چاہتے تھے مگر سیلاب کی تباہ کاری نے رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی تھیں۔ سیلاب سے متاثر لوگوں کے پاس نہ تو پیسہ تھا اور نہ ہی ان میں ہسپتال جانے کی سکت تھی۔ شاہراہیں بھی سیلاب میں بہہ چکی تھیں ایسے میں خواتین بچے اور بزرگ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
منظور مرشد نے دنیا کے سب سے بڑے مینگروز کے جنگلات کا حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ ہم نے سندر بن سے کشی کرائے پر لی ہے تاکہ طبی امداد فراہم کی جا سکے۔ اس عارضی ہسپتال کو جیون کھیہ کا نام دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یکم ستمبر کو آٹھ ڈاکٹرز اور متعدد نرسوں کے ساتھ اس کا سفر شروع ہوا۔ دیگر ماہرین کے ساتھ ساتھ ان میں دو دانتوں کے ڈاکٹرز اور ایک ماہرِ امراض چشم و ایک درجن تربیت یافتہ رضا کار شامل تھے۔
منظور مرشد نے کہا کہ پہلے دن 300 سے زیادہ لوگوں کا بغیر معاوضے کے علاج کیا گیا اور ادویات فراہم کی گئیں۔ اور جو لوگ زیادہ بیمار تھے انہیں قریبی جنرل اسپتال بھیجا گیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں منظور مرشد نے کہا کہ علاج کرانے والوں میں زیادہ تر سیکس ورکرز اور ان کے بچے شامل تھے۔ پہلا دن ہماری ٹیم کے لیے بہت اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا۔ ان بے سہارا لوگوں کے مسکراتے چہروں کو دیکھ کر ہماری ٹیم پرجوش ہو گئی تھی۔
اس کے بعد کشتی میں قائم ہسپتال کا رخ جنوب کی طرف ہو گیا جب کہ یہ پہلے سے طے ہو گیا تھا کہ راستے میں کن مقامات پر لوگوں کے علاج کے لیے کشی روکی جائے گی۔
رضاکاروں کا کہنا تھا کہ اس دوران ہزاروں افراد کا علاج کیا گیا جب کہ کشتی میں قائم اسپتال کو دیکھنے کے لیے آنے والوں میں ماسک بھی تقسیم کیے گئے۔
ساحل کے ساتھ رہنے والے لاکھوں افراد ہر سال سیلاب اور طوفان کے باعث اپنی زمین اور گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ متعدد علاقے قدرتی آفات سے اسپتالوں اور سڑکوں تک سے محروم ہو جاتے ہیں۔
رواں برس بنگلا دیش کا تقریباَ 37 فیصد حصہ تین ماہ تک زیرِ آب رہا جس کے سبب 50 لاکھ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ جب کہ سیلاب سے 100 سے زیادہ افراد ہلاک بھی ہوئے۔
فاؤنڈیشن کے چیئرمین کشور کمار داس نے کہا کہ آب و ہوا تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ ہمارے لوگ پریشانی میں مبتلا ہیں مگر ہم ایک مثال بنانا چاہتے تھے کہ ہمیں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ جیون کھیہ اسی مقصد کے لیے ہے۔ کشور کمار داس جہاز میں ذاتی ہسپتال قائم کرنے خواہشمند ہیں۔