لاہور: (سپیشل فیچر) پہلی جنگ عظیم میں شہر کے شہر کھنڈرات میں بدل گئے، لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، انسان بنیادی ضرورتو ں کو ترستا رہا۔ اس گھنائونے ماحول میں کچھ مبصرین نے جنگ کی تباہ کاریوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے جنگ کے چند اچھے پہلو تلاش کر لئے۔ امریکہ نے اس جنگ کو ٹیکنالوجی کے ارتقا سے تعبیر کیا ہے،وہ کہتے ہیں اس جنگ کے دوران کئی اہم ایجادات کی گئیں جو آج بھی نیشنل ورلڈ وار1 میوزیم میں محفوظ ہیں۔
روئی کی ایجاد
1914ء میں دوملازمین نے زخمیوں کی جانیں بچانے کے لیے مشینوں کے ذریعے لکڑی کے گودے سے روئی سے ملتی جلتی چیز تیار کی۔ خون کے بہائو کو روکنے کے لئے یہ چیز امریکی سرجن جنرل کی اجازت سے زخمی فوجیوں کی مرہم پٹی میں استعمال کی گئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دورا ن یہ بہت ہی قلیل مقدار میں تیار کی گئی ۔ ایک کمپنی ایک منٹ میں 380سے 500 فٹ تک یہ روئی بنا لیتی تھی۔ ریڈ کراس کی نرسوں نے بھی یہی میٹریل استعمال کیا۔ آج کل روئی زخمی انسانیت کی مرہم پٹی کے لیے بنیادی جزو کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بغیر ہسپتال کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
کلائی کی گھڑیاں
پرانے زمانے میں گھڑیوں کو دولت کی نشانی سمجھا جاتا تھا اسی لیے گھڑیاں خواتین کے زیور کا حصہ تھیں۔اس دور میں جیبوں میں رکھنے والی گھڑیاں تو تیار کر لی گئی تھیں مگر کلائی کی گھڑیوں کا کوئی تصور نہ تھا۔ یہ گھڑیاں جنگ میں پوزیشن بدلنے کے دوران گم ہو جاتی تھیں،اس لئے فوجی حملے کا وقت جاننے سے محروم رہ جاتے تھے ۔ جنگ عظیم اول کے دوران بڑے سائز کی ایسی گھڑیوں کی ضرورت بھی محسوس کی گئی جو جسم کے ساتھ بندھی رہیں ، گم نہ ہوں۔اور ان میں رات کو بھی وقت نظر آئے۔چنانچہ اندھیرے میں چمکنے والے میٹریل سے ہند سوں والی گھڑیا ں بنائی گئیں۔ان گھڑیوں میں نمبروں کو اندھیرے میں چمکنے والے مادے سے لکھاگیا تھا ، اس سے مقررہ وقت پر حملہ کرنے میں آسانی پیدا ہوئی۔
اخبار سے تیار کردہ کپڑے
برطانیہ نے جرمن فوج کا معاصرہ کر رکھا تھا ۔ فوجی اور غذائی سازو سامان کی نقل حمل ختم ہونے سے وہاں ہر چیزکی قلت پیدا ہو گئی تھی۔ چنانچہ فوجیوں نے اخبارات کو ڈائی کر کے، کچھ کیمیکلز ملا کر کپڑے‘‘ تیار کئے ۔ کارٹ ( Cart)نامی محقق نے جنگ عظیم اول میں اس قسم کے کپڑوں کے استعما ل کی تصدیق کی ہے۔ میئر کولون کونراڈ ایڈینر (Konrad Adenauer) جنگ کے بعد چانسلر جرمنی منتخب ہوئے ،انہوں نے سبزیوں اور آٹے کی مدد سے کھانے کی نئی ڈشیں تیار کروائیں جنہیں جرمن زبان میں kolner wurst کہا جاتا ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد ان کھانوں کو مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔
پلاسٹک سرجری
جنگ عظیم اول کو پلاسٹک سرجری کی ما ں سمجھا جاتا ہے۔ روزانہ کبھی سینکڑوں اور کبھی ہزاروں زخمی ہسپتالوںمیں لائے جا رہے تھے، ان کا علاج آسان نہ تھا۔کسی کے فوجی کان کٹے تھے توکسی کی آنکھیں ضائع ہو چکی تھیں۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی تو کسی کے بازو نہ تھے۔ طبی ماہرین نے ان زخمیوں کے علاج کے لیے انتہائی محنت کی۔ انہیں نئی شکل و صورت دینے کے لیے جوکام کئے، وہی آگے چل کر پلاسٹک سرجر ی کی بنیاد بنے۔ ان ڈاکٹروں نے مصنوعی آنکھ ، مصنوعی کان، مصنوعی ناک اور مصنوعی جبڑے بنانے پر بھی توجہ دی۔
اس ضمن میں ڈاکٹر ہینڈری بیکن اور ڈاکٹر ہیرلڈ بیس نے زیادہ شہرت سمیٹی ۔ کوئینز میری ہسپتال ‘‘کے یہ دونوں ڈاکٹر برطانیہ اور نیوزی لینڈ سے آنے والے زخمیوں کا علاج کررہے تھے۔ ڈاکٹر گلس نے زخمیوں کے اپنے ٹشوئوں کو ان کے علاج میں استعمال کرنے کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی دوسرے کے ٹشوز ان کاجسم قبول نہیںکرے گا لیکن ان کے اپنے ٹشوز نارمل ٹشوئوں کی طرح فروغ پاسکتے ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے 1920ء میں ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان تھا پلاسٹک سرجری آف دی فیس‘‘۔ کہتے ہیں کہ جنگ عظیم اول میں ان ایجادات کے علاوہ بھی کئی ایجادات کی گئی تھیں۔