نیو یارک: (ویب ڈیسک) امریکا سے آئی خبر نے سب کو حیران کر ڈالا ہے، 27 برس قبل منجمد کیے گئے بیضے سے بچی کی پیدائش ہوئی ہے جو کو بالکل صحت مند ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق مولی گبسن رواں برس اکتوبر میں پیدا ہوئی تھی تو اسکی پیدائش کے لیے منجمد بیضے کو 27 سال ہو گئے تھے۔ نومولود بچی کے ایمبریو یا بیضے کو اکتوبر 1992ء میں منجمد کر دیا گیا تھا اور وہ رواں برس فروری تک اسی حالت میں رہا، پھر امریکی شہر ٹینیسی کے رہائشی جوڑے نے اس کو اپنا لیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مولی نے سب سے طویل منجمد بیضے سے پیدائش کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے اور اپنی بڑی بہن ایما کا قائم کردہ ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔
مس گبسن کا کہنا ہے کہ میں بے انتہا خوش ہوں، اب بھی خوش سے میرا دم نکل جاتا ہے۔ اگر آپ مجھ سے پانچ سال پہلے پوچھتے کہ اگر میری ایک نہیں دو بچیاں ہیں تو میں یہ کہتی کہ آپ پاگل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سائیکلسٹ کا ہینڈل اور بریک کے بغیر 3.5 ہزار کلو میٹر کا سفر
مس گبسن کے والدین کی جانب سے ایک مقامی نیوز چینل پر بیضے کو گود لینے یا اپنانے کی خبر سننے سے قبل اس خاندان کو پانچ برس تک بانجھ پن کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
29 سالہ مِس گبسن کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی کہانی شیئر کرتے ہیں۔ اگر میرے والدین نے یہ خبر نہ دیکھی ہوتی تو ہم یہاں نہیں ہوتے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسے منظر عام پر آنا چاہیے۔
گبسن خاندان کی جانب سے انکے پہلے بیضے کو گود لینے کے بعد ، مس گبسن نے 2017 میں ایما کو جنم دیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ راتوں کو جاگ کر بچے کی دعا مانگنے والی راتیں زچگی کی جگ راتوں میں تبدیل ہوگئیں تھیں۔ یہ تھکاوٹ کی بہترین قسم تھی اور یہ تھکن بہت اچھی ہے۔
17 برس قبل قائم ہونے والے ادارے این ای ڈی سی نے 1000 سے زیادہ بیضوں کو گود دینے اور بچوں کی پیدائش میں مدد فراہم کی ہے اور اب ہر سال تقریباً 200 بیضوں کو لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی بچے کو گود لینے کے روایتی عمل کی طرح ہی، جوڑے فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آیا وہ بیضے کو گود لینے کے ’بند` معاہدے کو یا کھلے معاہدے کو اپنانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: رینگنے والے جانوروں کیلئے انوکھا پل
یعنی بیضے لینے کے کھلے معاہدے کے تحت اس کو عطیہ کرنے والے خاندان سے کسی قسم کا رابطہ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔
مارک میلنگر کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں جوڑوں کے درمیان چند ای میلز کے تبادلے سے لے کر کزن جیسے تعلق کی اجازت ہوتی ہے۔ جوڑے کو دو سو سے تین سو ڈونر پروفائلز پیش کیے جاتے ہیں جس میں ڈونر کنبے کا مکمل شجرہ نسب اور آبادیاتی تاریخ ہوتی ہے۔ گبسنز بھی بہت عرصے سے بچہ چاہتے تھے اور ان کے پاس بہت سی آپشن تھیں۔
مس گبسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس کی پرواہ نہیں تھی کہ یہ بچہ کیسا دکھے گا، یہ کہاں سے آیا ہے۔
انھوں نے اس متعلق این ای ڈی سی سے صلاح طلب کی جہاں ایک ملازم نے انھیں کچھ احمقانہ لینے اور وہاں سے جانے کو کہا۔
میں اور میرے شوہر چھوٹے قد کے تھے لہذا ہم نے تمام پروفائلز دیکھے اور ایسے بیضے کا انتخاب کیا جو ہمارے قد کاٹھ کے مطابق ہوں اور ہم جیسے دکھے۔ اس کے لیے ہم نے سینکڑوں پروفائلز کا جائزہ لیا۔
گبسنز جوڑے کی بیٹیاں ایما اور مولی جینیاتی طور پر ایک دوسرے کی بہنیں ہیں۔ دونوں بیضے 1992 میں ایک ساتھ عطیہ اور منجمد کیے گئے تھے جب ٹینا گبسن تقریباً ایک برس کی تھی۔