لاہور: (سپیشل فیچر) اگر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ روحوں کی آوازیں سن سکتا ہے تو وہ اکیلا نہیں ہے، اس دنیا میں اور بھی بہت سے افراد مرے ہوئے لوگوں کی باتیں سننے کے دعوے دار ہیں۔
برطانیہ میں روحوں سے باتوں کرنے والوں نے ایک تنظیم Spiritualists National Union (SNU)‘‘ بھی بنا رکھی ہے، جس کے ممبران کی تعداد 11 ہزار سے زائد ہے۔
دنیا کے ہر گوشے میں لوگوں کی حیران کن حد تک زیادہ تعداد روحوں سے باتیں کرنے کی دعوے دار ہے۔ یہ ان کے پاس آتی ہیں، کچھ کہہ کر چلی جاتی ہیں۔
کبھی کوئی بات یاد رہ جاتی ہے اور کبھی خوف سے سب کچھ ذہن سے محو ہو جاتا ہے۔ ایسا قبرستان میں ہو سکتا ہے کہ فرد ابھی مڑا ہی ہے کہ کسی نے پیچھے سے قدم روک لئے۔ سفید چوغے میں کسی نے دیکھا اور فضا میں کہیں گم ہو گیا! کبھی آواز دی ٹھہرو‘‘! فرد نے مڑ کر دیکھا۔ ہیولہ سا نظر آیا جو لمحوں میں غائب ہو گیا۔
ان لوگوں کو کئی بار ایسا لگا جیسے کوئی ان سے مخاطب ہو، کچھ کہنا چاہتا ہو۔ یہ ان کا پیارا رشتے دار یا دوست بھی ہو سکتا ہے اور بزرگ ہستی بھی۔
آرتھرکانن ڈائل کے ناول ہوں یا کم کر دیشیاں کی باتیں، ان میں بھی روحوں کو پڑھا جا سکتا ہے۔1848ء میں نیویارک میں مقیم 2بہنوں میگی اور کیٹس نے بھی دعویٰ کیا رات پڑتے ہی روحیں دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں،اندھیرا چھاتے ہی کوئی ان کے دروازوں پر ہولے ہولے دستک دیتا ہے‘‘۔
بعض تحقیقات سے پتا چلا کہ روحوں سے باتیں کرنے والے نصف کے قریب افراد کو اپنے بچھڑے ہوئے رشتے دار دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ موت کے بعد روح اوپر چلی جاتی ہے، ہم اسے محسوس کر سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں۔
ہمیں ان کا کوئی ادراک نہیں ہوتا اگر ہم ادراک کر سکتے ہوتے تو اس دنیا سے رخصت ہونے والے اربوں باشندوں کی باتیں ہمارے لئے سوہان روح بنی ہوتیں۔ہر طرف ایک ہجوم ہوتا جو ہم سے کچھ کہنا چاہتا۔ اسی لئے انہیں ہم سے دور رکھ کر اللہ تعالیٰ نے بہت سی مشکلات سے بچا لیا ہے۔
یہ اکتوبر 1841ء کی ایک سرد رات کا ذکر ہے۔ لیور پول کے ہر مکان میں سناٹا تھا، خاموشی اتنی کہ پتوں کی سرسراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی،مگر نیند مسز بیٹس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ انہوں نے کچھ د یر پہلے اپنی سہیلی ایلزبیتھ مارگن کو مسہری کے قریب دیکھا۔ اس نے کچھ باتیں کیں اور چلی گئی ۔ سہیلی کی دوچار باتوں نے مسز بیٹس کی نیند ہی اڑا دی تھی۔ سفید جھالروں والے ڈریس میں میری سہیلی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی‘‘!ابھی وہ یہ سوچ یہ رہی تھی کہ اسے فون پر مسز ایلزبیتھ کی موت کی اطلاع ملی۔ وہ اس دنیا میں نہیں رہی۔موت اور بیٹس سے ملاقات کا وقت کم و پیش ایک جیسا تھا۔ وہ مجھے الوداع کہنے آئی تھی‘‘۔ موت کا سنتے ہی بیٹس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ،جسم میں کپکپی سی دوڑ گئی۔
یہ عمل کیا ہے؟ کسی کو کیوں آوازیں سنائی دیتی ہیں،دوسرے کیوں محروم رہتے ہیں،کیا روحوں کااس دنیا میں وجود ہے یا وہ ہم سے مخاطب ہو سکتی ہیں؟یہ سوالات نئے ہیں نہ ہی پہلی مرتبہ ہمارے سامنے آئے، ماہرین نفسیات 17ویں صدی سے ان کے جوابات کی تلاش میں ہیں۔ایڈم جے پاول اور پیٹر موسلے نے 29جنوری 2021ء کو لکھا کہ ، If you think You Can Hear Dead People You Are Not Alone ‘‘۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسا ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ مذہبی یاماورائے فطرت باتوں پر یقین رکھنے والے افراد کو یہ سرگرمیاں زیادہ محسوس ہوتی ہیں۔وہ روحوں سے باتیں کرنے کے دعوے دار ہوتے ہیں اور پھروہ ا پنی خطائے حس کے سحر میں مبتلا ہوکر اس بات کو سچائی مان لیتے ہیں جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا‘‘۔ایک تحقیق کے دوران 75فیصد افراد نے بتایا کہ وہ اس سے پہلے ایسے تجربات سے کبھی نہیں گزرے تھے‘‘۔
دنیا بھر میں پامسٹری کا دور تقریباً ختم ہو چکا ہے، نئی نسل کیرو کو نہیں جانتی، پامسٹری کی جگہ آسٹرو پامسٹوں نے لے لی اب ان کی جگہ سائیکک ایکسپرٹ ‘‘ لے رہے ہیں۔
برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک ترقی یافتہ ممالک میں بھی سائیکک ماہرین جگہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ کوئی طاقت ہے جو انہیں کچھ نہ کچھ سمجھادیتی ہے‘‘۔چھٹی حس کی جگہ کوئی اور حس ہے جو مستقبل میں جھانکنے میں معاون بنتی ہے۔
سٹنفورڈ یونیورسٹی کی انتھرو پالوجسٹ تانیا لوہر مین (Tanya Luhrmann)کا کہنا ہے کہ مذہبی اعتقادات ،مصروفیت اور کبھی کبھی کوئی بیماری ... اس قسم کے ادراک کا باعث بن سکتی ہے‘‘ ۔ اسے Religiuos and Spiritual Experiences(RSEs)‘‘ کہا جاتاہے۔اس کا تعلق شعور اور تحت الشعو میں پکنے والی کچھڑی ‘‘ (یعنی الجھنوں اور مصروفیات)سے بھی ہو سکتا ہے اس کے پس منظرمیں خطائے حس کے سوا کچھ نہیں ہوتا! ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا ایمان روح پر ہے، کچھ کا ماننا ہے کہ روحیں ہم سے باتیں بھی کر سکتی ہیں اسی لئے روحیں صرف ان سے ہی باتیں کرتی ہیں جنہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ روحوں سے باتیں کر سکتے ہیں‘‘۔
ماہرین نفسیات نے اس عمل کو ہیلوسی نیشن ‘‘ (خطائے حس) قرار دیا ہے یعنی جنوں بھوتوں سے کی جانے والی باتیں خطائے حس کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ حس خطا کھا جاتی ہے اور وہ کچھ محسوس کرا دیتی ہے جس کا سچائی سے تعلق نہیں ہوتا۔