چار ممالک جو ہمارے ایک شہر میں سما جائیں

Published On 03 February,2021 09:14 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) ‘’ملک’’ کا لفظ ذہن میں آتے ہی کسی ایسی جگہ کا تصور ابھرتا ہے جس میں کئی شہر اور بے شمار قصبات ہوں گے۔ دیہات، پولیس، تعلیم، صحت عامہ کے ادارے اور وسیع صنعتی ڈھانچہ بھی قائم ہو گا ۔ لاکھوں یا کروڑوں کی آبادی ہو گی۔ مخصوص کلچر ان کی پہچان ہو گا

تاہم یہ سب کچھ ہونا کسی بھی ملک کے لئے لازمی تو نہیں، ایسے ممالک بھی ہیں جن کی آبادی چند سو سے یا چند ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ زیادہ تر چھوٹے ممالک ٹروپیکل خطے میں قائم ہیں، وہیں بنتے بگڑتے رہے۔ یورپ کی شہری ریاستوں سے لے کر دور دراز کے جزائر پر مشتمل خطے بھی ملک کی تشریح پر پورے اترتے ہیں۔ویٹی کن سٹی، مناکو اور نائورو (Nauro) ،توولو (Tavalu)، سان مارینو، لیچ ٹنسائن (Leichtenstein) ، مارشل آئی لینڈز، سینٹ کٹس اینڈ نیوس، مالدیپ اور مالٹا بھی شامل ہیں ۔ ان سب ممالک کی آبادی مل کر بھی لاہور سے کم ہے ۔

ویٹی کن سٹی :آبادی 801نفوس
نائورو: آبادی10824 نفوس
توالو : آبادی 11792نفوس
پائولو:آبادی 18ہزارنفوس
سینٹ مارینو : آبادی 34ہزارنفوس
مناکو: آبادی 39ہزارنفوس

ویٹی کن سٹی

اٹلی کے عین مرکز میں قائم دنیا کے سب سے چھوٹا ملک   ویٹی کن سٹی‘‘ کی خصوصیت رومن کیتھلک چرچ کا صدردفتر مقام ہونا ہے 1 مربع میل سے کم ،49ہیکٹرز پر قائم ویٹی کن سٹی کی آبادی 801نفوس ہے۔تاہم اس کا اپنا بینکاری نظام، پوسٹل سسٹم ،ریڈیو سٹیشن اور اپنی کرنسی   ویٹی کن یورو‘‘ہے۔ یورپ میں یہ کرنسی چلتی ہے، اسے سٹی سٹیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے   سربراہ ‘‘ پوپ ہیں جو دنیا بھر میں رومن کیتھولک چرچ کا نظام چلا رہے ہیں ۔ سیکیورٹی اس لئے بڑا مسئلہ ہے کہ پوپ بچوں اور خواتین سمیت لوگوں سے ہر صورت ملنا چاہتے ہیں، سیکیورٹی کسی کو بھی ان سے ملنے سے نہیں روک سکتی اس لئے چوکس رہنا پڑتا ہے کہ کہیں اس عظیم رہنما کو کچھ ہو نہ جائے۔

اس شہری ریاست کی بنیاد چوتھی صدی عیسوی میں سینٹ پیٹرز کے مقبرے کے ساتھ چرچ کی تعمیر سے رکھ دی گئی تھی۔چرچ کی اہمیت کے باعث یہ علاقہ چوتھی صدی میں بڑا تجارتی اور مذہبی مرکز بن چکا تھا ۔ 1309ء میں پپل کورٹ کی فرانس منتقلی بھی اس کی مذہبی اہمیت کو کم نہ کر سکی۔1377ء میں مزید گرجا گھروں کی تعمیر سے ویٹی کن سٹی کی مذہبی اہمیت بڑھنے لگی، 1929ء   معاہدہ لیٹران‘‘ (Lateran Pacts) کے ساتھ اسے الگ ملک کا درجہ مل گیا، قدیم شاہی محلات بھی ورثے میں مل گئے ۔کالیگولہ کے شاہی باغات کی الگ ہی شان ہے۔

مناکو

بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ 1 مربع میل (202ہیکٹرز) پر واقع مناکو کی ایک تہائی آبادی ارب پتی ہیں۔یعنی 1 مربع میل میں 12261ارب پتی رہتے ہیں، یہاں جائیداد خریدنا ٹیکس چوروں کے بھی بس میں نہیں۔1 مربع فٹ 2859ڈالرز سے کم میں نہیں ملے گا۔البتہ اوسط درجے کے مکانات 50 لاکھ ڈالرز میں مل سکتے ہیں۔ اسکی وجہ شہرت جوئے خانے بھی ہیں دنیا بھر کے امراء سال بھر میں جو کچھ کماتے ہیں ، ایک دن میں لٹانے کے لئے مناکو کا رخ کرتے ہیں۔ کیسینوز میں روپیہ لٹانے کے بعد دل بہلانے کوسمندری سفر تو بنتا ہے۔ یہ ملک ٹیکس چوروں کی جنت کے نام سے بھی مشہور (یا بدنام) ہے۔ یہ ملک کئی مرتبہ لوٹا گیا، کئی مرتبہ بربادی کا سامنا کرنے کے بعد آج پھر ایک جدید ریاست کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔

یہاں کے قدیم باشندے   لگورز‘‘ (Ligures) کہلاتے ہیں جن کی باقیات   سینٹ مارٹن گارڈنز‘‘ کے غاروں میں بھی دریافت ہوئی ہیں۔جنگلی جانوروں اور موسم کی شدت کے خلاف   راک آف مناکو ‘‘ ان کی اچھی پناہ گاہ تھی۔

  مناکو‘‘کا یہ نام کیسے پڑا ؟اس کی کئی توجیحات بیان کی جاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں   مونیکوس ‘‘ نامی چٹان لگورین قبائلی کا مرکز ہوا کرتی تھی ۔مونکوس بگڑ کر مناکو بن گیا۔یونانی اس سے اختلاف کرتے ہیں وہ نام کی وجہ اپنے کلچر میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ راوی ہیں کہ مناکو کے قدیم باشندے ہیرو   ہراکلس ‘ مونوکوس ‘‘ کے پجاری تھے، ان مؤرخین کا کہنا ہے کہ   ہراکلس ‘‘ ہرکولیس کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔

نائورو

بحرالکاہل کے جنوب مغرب اور خط استواء سے 25میل جنوب میں ایک اور ننھا سا ملک   نائورو‘‘ واقع ہے۔شمال مشرق میں جزائر سالومن واقع ہیں۔اس کا کوئی مرکزی دارالحکومت نہیں تاہم سرکاری دفاتر یارن (Yaren) میں قائم ہیں۔ 12مربع میل رقبے پر قائم اس ملک کی آبادی 11 ہزار ہے 18 ویں صدی میں غیر ملکی مشنریز نے 80 فیصد مقامی آبادی کو عیسائیت کا پیروکار بنا دیا تھا۔یہاں کا درجہ حرارت 80فارن ہائٹ سے اوپر خال خال ہی جاتا ہے۔ سمندری ہوائیں آب و ہوا کو معتدل اور پرکیف رکھتی ہیں۔ سال بھر میں ہونے والی تقریباََ 80انچ بارشیں حسن میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔یہی بارشی پانی چھتوں پر بنائے گئے خصوصی ٹینکوں میں جمع کر لیا جاتا ہے ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اشیائے خور و نوش کی فیکٹریاں قائم ہیں نہ پانی صاف کرنے کا انتظام ہے، پینے کا صاف پانی تک آسٹریلیا سے درآمد کیا جاتا ہے ۔ نائورو کا اپنا صنعتی ڈھانچہ قدرے کمزور ہے۔ فاسفیٹ کی کانوں کی بہتات ہے ، خام مال سستا اور فوری دستیاب ہونے کے باعث برطانیہ ، نیوزی لینڈاور آسٹریا نے کئی اقسام کی فیکٹریاں نائورو میں لگا رکھی ہیں۔

1968ء میں آزادی کے بعد آئین سازی کر لی گئی تھی، صدارتی اور پارلیمانی نظام ہائے حکومتوں کو ملا کر نیا نظام قائم کیا گیا ہے۔ پارلیمینٹ 3 برس کیلئے منتخب کی جاتی ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی برطرفی کا سبب بن سکتی ہے۔ صدر پارلیمینٹ اور حکومت کاسربراہ ہوتا ہے۔

توالو(Tuvalu)

بحرالکاہل ویسٹ سنٹرل میں قائم اس ملک کا رقبہ 420مربع میل ہے۔یکم اکتوبر 1978ء کو برطانیہ سے آزاد ہونیوالے ملک توالوکے معنی ہیں   آٹھ اکٹھے‘‘ ۔8 جزائر پر مشتمل اس ملک کو   ڈوبتا ہوا ملک‘‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ بعض دوسرے خطوں کی طرح توالو کا شمال مغربی اور جنوب مشرقی حصہ سمندر میں ڈوب رہا ہے۔ سائنس دانوں نے کہاہے کہ اگر اگلے 50 سے 100 برس کے اندر اندر اس ملک کا وجود مٹ جائے تو انہیں حیرت نہ ہو گی ۔درجہ حرارت بڑھنے سے زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

تحریر : سلمان بخش

 

 

Advertisement