شام میں جنگ کی وجوہات کیا ہیں؟

Last Updated On 15 April,2018 10:14 pm

دمشق: (دنیا نیوز) یاد رہے کہ گزشتہ رو زامریکہ، برطانیہ اور فرانس نے شام پر حملہ کر دیا، حملوں میں امریکی بحریہ اور جنگی طیاروں نے حملوں میں حصہ لیا ۔ بحیرہ روم سے شام کی کیمیائی تنصیبات پر کروز میزائل داغے گئے۔ امریکی میڈیا اور دفاعی حکام کے مطابق حملے میں ٹوماہاک کروز میزائل، بی ون بمبرز، بحری جہاز اور امریکی جنگی طیاروں کا استعمال کیا گیا۔

جنگ کی چنگاری 7 سال پہلے بھڑکی، شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف پرامن احتجاج خانہ جنگی میں بدل گیا۔ خانہ جنگی میں اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔ شام کے متعدد شہر اور قصبے کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔ شام میں مارچ 2011 میں  عرب سپرنگ  سے متاثر جمہوریت کے حق میں مظاہرے ہوئے، حکومت نے مظاہرے کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا، بات بڑھی تو صدربشارالاسد کے استعفے تک جا پہنچی حزبِ مخالف کے حامیوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے اور شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔

لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سے شامیوں کو صدر اسد کی حکومت سے بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کی شکایتیں تھیں۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی جگہ 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔

 شام میں ہر فریق کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے، جنگ کا ایک محاذ فرقہ ورایت ہے، دوسرا محاذ ،دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسی تنظیمیں ہیں جبکہ تیسرا محاذ کرد ہیں جو الگ ملک چاہتے ہیں۔شامی حکومت کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے جبکہ باغیوں کی امریکا، ترکی اور سعودی عرب پشت پناہی کر رہے ہیں۔ روس نے بھی شام میں فوجی اڈے بنائے اور باغیوں پر فضائی حملے کئے۔ سعودی عرب کو بھی ایران کے اثر و رسوخ کی فکر رہی اور اسرائیل نے شام میں لڑنے والی حزب اللہ پر تشویش کا اظہار کیا۔ ،

شام میں جاری جنگ کے باعث ہزاروں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ہزاروں بچے لقمہ اجل بنے، تاریخی مقامات تباہ و برباد ہوئے، شام میں اب بھی آگ اور خون کی بارش جاری ہے۔

ماہرین کے مطابق اس تنازعے کا تصفیہ جنگ سے نہیں سیاسی مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 2012 کی جنیوا مراسلے کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شام میں صلاح و مشورے سے  عبوری حکومت  قائم کی جائے۔ لیکن 2014 کے بعد سے اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں جنیوا 2 کہلائے جانے والے مذاکرات کے نو دو بےنتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ صدر اسد حزبِ مخالف سے بات کرنے سے کترا رہے ہیں، جب کہ باغیوں کا اصرار ہے کہ پہلے اسد استعفیٰ دیں۔