نریندر مودی کے گرو آسارام کو ریپ کے جرم میں عمر قید کی سزا

Last Updated On 25 April,2018 06:22 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) انڈیا کے شہر جودھپور کی ایک عدالت نے ملک کے سرکردہ سادھو آسارام کو ایک نابالغ لڑکی کے ریپ کے مقدمے میں مجرم قرار دینے کے بعد تاحیات قید کی سزا سنا دی ہے۔

77 سالہ آسارام پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنے آشرم میں اگست 2013 میں ایک 16 سال کی نابالغ لڑکی کا ریپ کیا تھا۔ اس معاملے میں بابا کے چار معاونین پر بھی جرم میں شریک ہونے کا الزام تھا۔ عدالت نے ان کے دو معاونین شلپی اور شردچندر کو قصوروار قرار دیا اور انھیں 20، 20 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ دو کو بری کر دیا گیا ہے۔ شلپی اس سکول کی وارڈن تھی جس میں متاثرہ بچی زیرِ تعلیم تھی جبکہ شردچندر اسی سکول کے منتظم تھے۔

اگست سنہ 2013 میں آسارام کے خلاف ریپ کا مقدمہ درج کرنے والا خاندان ریاست اترپردیش کے علاقے شاہجہاں پور کا رہنے والا ہے۔ اس واقعے سے قبل متاثرہ لڑکی کا پورا خاندان آسارام کا عقیدت مند تھا۔ متاثرہ لڑکی کے والد نے اپنے پیسے سے شاہجہاں پور میں آسارام کا آشرم تعمیر کروایا تھا۔  مہذب تعلیم و تربیت  کی امید میں انھوں نے اپنے دو بچوں کو چھندواڑا میں واقع آسارام کے تعلیمی ادارے میں پڑھنے کے لیے بھیجا تھا۔ مقدمے میں دائر چارج شیٹ کے مطابق آسارام نے 15 اگست کی شام 16 سالہ لڑکی کو  علاج  کے بہانے سے اپنی کٹیا (رہائش) میں بلا کر اس کا ریپ کیا۔ اسی معاملے میں عدالت نے آسارام کو مجرم قرار دیا ہے۔عدالت نے تینوں سزا یافتہ مجرمان کو ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا ہے۔آسارام کے وکلا نے ذیلی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ آسارام باپو کی گرفتاری کے بعد جودھ پور میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جب کے زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کے خاندان کو بھی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ اس مقدمے کے دو گواہوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ لڑکی کے والد نے کہا کہ ہمیں انصاف ملنے پر خوشی ہے اور امید کرتے ہیں کہ جن گواہوں کو قتل کیا گیا تھا انہیں بھی انصاف ملے گا۔

گرو آسارام باپو کون ہیں؟

سفید داڑھی اور سفید لباس والے آسارام باپو ہندو روحانی پیشوا ہیں۔ 2013 میں انہیں ایک سولہ سالہ لڑکی کو زیادتی کا شکار بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 

آسارام باپو کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ سندھ میں پیدا ہوئے، تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارتی شہر احمد آباد ہجرت کر گیا۔کئی سال گجرات کے شہروں میں قیام کے بعد یہ خاندان کسی رشتہ دار کے کہنے پر اجمیر منتقل ہو گیا۔

غربت سے تنگ آسارم باپو اجمیر شریف کے زائرین کو ریلوے اسٹیشن سے درگاہ تک چھوڑنے کے لئے تانگہ چلایا کرتے تھے۔ ان کو امیر بننے کا بہت شوق تھا۔ کچھ سال تانگہ چلانے کے بعد وہ احمد آباد واپس چلے گئے اور پھر کچھ عرصے پردے میں رہنے کے بعد وہ اپنے ماننے والوں کی بہت بڑی فوج لے کر روحانی پیشوا کے طور پرجلوہ گر ہوئے۔ انہوں نے اپنے دولتمند ماننے والوں کی مدد سے 10 ایکڑ زمین پر ایک آشارام بنایا اور پھر مزید آشاراموں کی تعمیر کا سلسلہ چل نکلا۔ اسارام باپو کےدنیا بھر سے کروڑوں کی تعداد میں پیروکار ہیں۔ وہ ہندو مذہب پر مبنی تقاریر کے لیے مشہور ہیں۔ بھارت سمیت پوری دنیا میں 400 اشرام چلاتے ہیں ۔ ابتدائی سالوں میں تقاریر کے بعد پرساد کے نام پر تقسیم کیے جانے والے مفت کھانے نے بھی آسارام کے  بھگتوں  (پیروؤں) کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کرنے میں اہم کردار نبھایا۔آسارام کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں ان کے چار کروڑ پیروکار ہیں۔ آنے والی دہائیوں میں اپنے بیٹے نارائن سائيں کے ساتھ آسارام نے 400 آشرم پر مبنی اپنی بڑی سلطنت قائم کی۔


وہ پچھلے 56 مہینوں سے جودھ پور کی جیل میں قید ہیں۔ عدالت نے 7 اپریل کو ان کے خلاف سولہ سالہ لڑکی سے زیادتی کے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اتر پردیش کی رہنے والی لڑکی کو اسارام روحانی علاج کا بہانہ بنا کر اپنے جودھپور کے آشارام میں لائے جہاں اس کے ساتھ جنسی استحصال کیا گیا۔ ان کے اوپر بیٹے کے ساتھ مل کر دو مزید لڑکیوں سے زیادتی کا بھی الزام ہے۔ انہوں نے ان پانچ سالوں میں 12 دفعہ ضمانت کی درخواست دی جو ہر دفعہ مسترد کر دی گئی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آسارام کا ان چند روحانی پیشواؤں میں شمار ہوتا ہے جن کے پیروکار کانگریس اور بی جے پی دونوں کے ہی اعلی رہنما رہ چکے ہیں۔ باپو کے شاگردوں میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپیئی، لال کرشن اڈوانی، نتن گٹکری، دگ وجے سنگھ، کمل ناتھ اور موتی لال ورا جیسے نام قابل ذکر ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی جن دنوں گجرات کے سی ایم تھے، متعدد مرتبہ آسارام کے آشرم میں ہونے والے پروگراموں میں شرکت کر تےرہے ہیں۔آسارام پر مختلف اوقات میں کم عمر لڑکیوں سے زیادتی کے الزامات لگنے کے بعد زیادہ تر لیڈران اور سیاسی پارٹیوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ آسارام کے خلاف گواہی دینے والے نو گواہوں پر حملہ بھی کیا گیا جن میں سے تین ہلاک ہو گئے۔ حکومت نے ان کا فیصلہ جیل میں ہی سنانے کی اپیل کی تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ سماجی کارکن منیشی جانی کے مطابق ان سب کے باوجود آسارام کو ایک قسم کا سیاسی تحفظ حاصل ہے۔ انھوں نے اسمبلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ  آسا رام باپو کے معاملے پر اسمبلی میں اس قدر ہنگامہ ہوا کہ مائیک تک اكھاڑے گئے۔  ان کے علاوہ ان کے آشرم اور پروگرام میں کئی دوسرے سیاسی رہنما بھی نظر آتے رہے ہیں۔