بیت المقدس (نیٹ نیوز ) اسرائیلی جیل میں قید ایک فلسطینی اسیر اُس تربوز کی تصویر کو باہر بھیجنے میں کامیاب ہو گیا جو اُس نے 17 برس کے طویل عرصے کے بعد دیکھا تھا۔
اسرائیلی جیلوں میں طویل عرصے سے قید اسیر ابو محمود نے تصویر کے ساتھ منسلک اپنے تبصرے میں بتایا کہ "جیل انتظامیہ نے تربوز پر تقریبا 18 برس سے عائد پابندی کو اٹھا لیا۔ انتظامیہ نے ہر چھ قیدیوں میں ایک تربوز تقسیم کیا اور ہم اب اذانِ مغرب کا انتظار کر رہے ہیں"۔
اسرائیلی جیلوں میں 13 برس گزارنے والے ایک قیدی ابراہیم سمحان نے بتایا کہ قابض حکام نے 2000ء میں بیت المقدس کی انتفاضہ تحریک کے وقت سے قیدیوں کے لیے تربوز پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہیں اندیشہ تھا کہ تربوز کے ذریعے بعض چیزوں کو خفیہ طور منتقل کیا جا سکتا ہے۔
سمحان کے مطابق ایک قیدی کے لیے یہ اقدام اذیت رسانی اور اسے محرومی کا احساس دلانے کے مترادف تھا۔ قابض حکام قیدیوں کے لیے بعض سادی سی اشیاء مثلا آئس کریم، خوشبو، تسبیح کے رنگین دانے، چمچے اور شیشے کے گلاس وغیرہ بھی ممنوع قرار دیتے ہیں۔ ماضی میں قیدیوں کی جانب سے جیل میں اپنی روز مرہ کی زندگی بہتر بنانے کے واسطے ہڑتالوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔
سونے کے لیے تکیے کا حصول قیدی کے لیے انتہائی خوش بختی شمار کی جاتی ہے۔ اسی طرح یکم رمضان کو اسرائیلی حکام کی جانب سے جیلوں میں تربوز کے داخلے کی اجازت دینا بھی ہے۔