کپتان کا انجام

Last Updated On 19 May,2018 03:18 pm

لاہور: (دنیا نیوز) بتان کی جنگ 7 جنوری سے 9 اپریل 1942ء تک دوسری عالمی جنگ میں فلپائن پر جاپانی حملے کے بعد لڑی گئی۔ اس دوران جاپانیوں نے بہت بڑی تعداد میں امریکی سپاہیوں کو قیدی بنا لیا تھا۔ یہ قیدی ایک جاپانی کپتان کی نگرانی میں بتان کے محاذ سے دور قیدیوں کے کیمپ کی طرف لے جائے جا رہے تھے۔ بتان سے کیمپ کا فاصلہ تقریباً 60 میل تھا۔ پہلے انہیں ایک مقام پر جانا تھا جہاں سے ان کو جہاز کے ذریعہ کیمپ تک پہنچنا تھا جو جنگی قیدیوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ان قیدیوں پر جاپانیوں نے جو ظلم ڈھائے اس کی داستان بڑی لرزہ خیز ہے۔

قیدیوں کے نگران جاپانی کپتان کے ساتھ اس کے مدد گار بھی تھے۔ قیدیوں کا قافلہ ابھی روانہ ہی ہوا تھا کہ جاپانی کیمپ سے خبر آئی کہ ایک ہزار قیدی اور آنے والے ہیں۔ ’’مزید ایک ہزار قیدیوں کو کنٹرول کون کرے گا؟‘‘ کپتان کے ماتحت نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا۔ وہ شاید اس خبر سے تشویش میں پڑ گیا تھا کہ امریکی قیدیوں کی بڑی تعداد جمع ہو کر کہیں جاپانیوں کے اس چھوٹے سے نگران دستے پر حملہ نہ کر دے۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ان قیدیوں میں بیشتر ایسے بیمار اور کمزور ہیں کہ ان سے چلا تک نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ جاپانیوں کا ایک اور دستہ پیچھے سے آنے والا ہے جو قیدیوں کی نگرانی کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔

قیدی بھوک اور پیاس سے اس قدر نڈھال ہو رہے تھے کہ انہوں نے اپنے لب تر کرنے کو آس پاس کے درختوں کی پتیاں اور ٹہنیاں نوچ کر منہ میں رکھ لیں۔ ان کے گارڈز کو کوئی علم نہ تھا کہ اعلیٰ حکام کی جانب سے ایسا کرنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ اس لیے انہوں نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ الغرض قیدیوں کی قطار گرتی پڑتی چلتی رہی۔ امریکی قیدیوں میں فلپائن کے قیدی بھی شامل تھے۔ ان کی بھی ایسی ہی درگت بنائی جا رہی تھی جیسی امریکی قیدیوں کی۔ اس علاقہ میں جاپانیوں کو فلپائن کے گوریلوں کا خطرہ بھی تھا جن کی طاقت کو ہر چند کمزور کر دیا گیا تھا پھر بھی اندیشہ تھا کہ شاید کہیں دبے چھپے رہ گئے ہوں۔

آگے چل کر جاپانیوں کی ایک چھوٹی سی چوکی ملی ۔ یہاں جاپانی سپاہی دھوپ سے بچنے کو ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھے۔ جاپانی کپتان جسے اومارا کے نام سے جانا جاتا تھا، نے اس خیال سے کہ چوکی پرکوئی بڑا افسر بھی موجود ہو قیدیوں کے ساتھ مزید سختی سے پیش آنے لگا۔ مگر معلوم ہوا کہ ان میں کوئی افسر نہیں بلکہ سب سپاہی ہیں لہٰذا وہ قیدیوں کو ٹھوکریں مارتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جاپانی گارڈز اور سپاہیوں نے پانی پیا اور قیدیوں کو ترسانے کے لیے انہیں بار بار دکھا کر ہنستے رہے۔ ایک جاپانی نے تو تھوڑا سا پانی برتن میں انڈیل کر اس طرح قیدیوں کو دکھایا گویا وہ انہیں پانی پلانا چاہتا ہے مگر اس نے وہ پانی زمین پر پھینک دیا۔
اتفاق سے اسی وقت ایک جیپ کا ریڈیٹر ٹوٹ گیا جس سے گرم گرم پانی نکل کر بہنے لگا۔ قیدی اس کھولتے ہوئے پانی پر ٹوٹ پڑے اور اپنے لب تر کرنے لگے مگر کپتان نے انہیں سختی سے ڈانٹ دیا۔ ’’اس کی اجازت نہیں ہے۔‘‘بہر حال قافلہ پھر چلنے لگا۔ تھوڑی دور چل کر کچھ گڑبڑ سی ہوئی۔ آسمان پر پرندے اڑ رہے تھے۔ اس سے جاپانی اندازہ لگا لیا کرتے تھے کہ جنگل میں کوئی چھپا ہوا ہے۔ مگر ابھی کوئی خطرہ سامنے نہ آیا تھا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد کپتان نے سب کو رک جانے کا اشارہ کیا۔ اب اس نے شاید کسی خطرے کا احساس کر لیا تھا۔

قیدیوں کی لائن رک گئی تو اس نے اپنے دو تین آدمیوں کو سامنے کی گھنی جھاڑیوں کی طرف روانہ کیا۔ جھاڑیوں کی تلاشی لی گئی مگر وہاں کچھ نظر نہ آیا۔ البتہ قدرے فاصلے پر کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ سپاہی لپک کر آواز کی طرف دوڑے تو انہوں نے اپنے ہی ایک آدمی کو زمین پر تڑپتا پایا۔ اس کے سینے میں نوکیلے بانس کا ایک تیر پیوست تھا۔ یہ کسی گوریلے کی کارروائی تھی۔ جاپانی بھی گھنے جنگل کی لڑائی میں ایسے ہی تیروں سے امریکیوں کو مارا کرتے تھے تاکہ آواز نہ ہو۔
اس واقعہ سے باخبر ہونے کے بعد کپتان چوکنا ہو گیا اور اس نے یقین کر لیا کہ جنگل میں کہیں گوریلے موجود ہیں لہٰذا بہتر یہ ہے کہ رات ہونے سے قبل سب جنگل سے نکل جائیں اور تیزی سے کسی ریلوے سٹیشن تک جا پہنچیں۔ مگر اس کے لیے تیزگامی کی سخت ضرورت تھی اور امریکی تیزی سے چلنے سے قاصر تھے۔ پھر بھی کپتان نے حکم دیا کہ قیدیوں کو تیز تیز ہانکا جائے۔ اب قیدیوں پر لاتیں، گھونسے اور بندوقوں کے بٹ پڑنے لگے تاکہ وہ جلد جلد قدم اٹھائیں۔

تاب نہ لا کر ایک امریکی افسر قیدیوں کی لائن سے نکل کر کپتان کے پاس آیا اور اس سے بولا کہ ہمارے آدمی بھوک، پیاس، بیماری اور کمزوری کی وجہ سے کسی طرح تیز چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ آپ انہیں تھوڑا سا سستا لینے کی اجازت دیں مگر کپتان نے سر ہلا کر کہا کہ جنگی نقطہ نظر سے یہ ہمارے لیے پرخطر ہو گا کیونکہ تمہارے مدد گار گوریلے جنگل میں کہیں چھپے ہوئے ہیں اور رات کا انتظار کر رہے ہوں گے۔کپتان نے اس کی ایک نہ سنی اور ایک سپاہی کو اشارہ کیا جو اسے گھسیٹ کر لے گیا۔
’’تیز چلو!‘‘ سپاہی نے اسے کپتان کے حکم سے آگاہ کیا۔ مگر قیدی افسر کے تو پیر ہی نہیں اٹھ رہے تھے وہ کیا تیز چلتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ سپاہی نے افسر کی پیٹھ میں سنگین گھونپ دی جو اس کا سینہ پار کرکے نکل گئی۔ دوسری جانب اومارا نے قریب پہنچ کر اس کے سر میں گولی مار دی۔ اس سے دوسرے امریکی قیدیوں میں سخت اضطراب پھیل گیا اور انہوں نے اپنی لائن سے نکل کر جاپانی سپاہیوں پر حملہ کر دیا۔ مگر نہتے کیا لڑتے۔ سپاہیوں نے پانچ چھ قیدیوں کو گولی سے اڑا دیا۔ اس طرح بظاہر قیدیوں کی بغاوت فرو ہو گئی۔

کافی دور چلنے کے بعد جاپانیوں کی دوسری فوج آ گئی۔ اس نے قیدیوں کو ٹرکوں میں ڈالا اور ایک طرف روانہ ہو گئی۔ اس وقت تک ان کی بڑی تعداد ہلاک ہو چکی تھی۔ کپتان اب اپنے ’’فرض‘‘ سے سبک دوش ہو گیا تھا۔ وہ بہت مطمئن اور خوش تھا۔ لیکن اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے تھے۔ چند روز کے بعد اسے امریکیوں سے لڑنے کے لیے ایک دوسرے محاذ پر جانا پڑا جس میں وہ خود بھی کام آ گیا اور اس کی پوری بٹالین کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

تحریر: قیسی رامپوری