لاہور: (روزنامہ دنیا) نشاۃ ثانیہ کے دوران یورپ الگ الگ قومی ریاستوں کے ایک مجموعے میں مرتب ہو گیا۔ اس سے پہلے یہ کم و بیش ایک متحدہ براعظم تھا جو کلیسا کے کنٹرول میں تھا۔ جب اقتدار تحلیل ہو کر مختلف ممالک میں سمٹ گیا تو مقامی قومی کلچر تشکیل پا گئے جو آرٹس اور لٹریچر میں نمایاں ہوئے۔ وہ فلسفہ میں بھی دیکھے جا سکتے تھے جو سترہویں صدی کے دوران ابھرا۔
عقل و خرد کے اس دور میں براعظم یورپ کی ’’عقلیت پسندی‘‘ (ریشنل ازم) اور برطانوی فلاسفروں کی تجربیت کے درمیان ایک واضح فرق تھا جو اٹھارویں صدی کے فلسفہ میں برقرار رہا اور ’’روشن خیالی‘‘ (انلائٹنمنٹ) کے دور میں فرانس اور برطانیہ کے دانشوروں میں منتقل ہو گیا۔ جب تجارت کی بنیادوں پر قائم نئے ملک ابھرے اور بے مثال خوش حالی کے ساتھ شہروں کا متوسط طبقہ تیزی سے وجود میں آیا تو پرانی قدریں اور جاگیردارانہ نظام لڑکھڑانے لگے۔ امیر ترین ممالک مثلاً برطانیہ، فرانس، سپین، پرتگال اور نیدرلینڈز نے دنیا بھر میں اپنی نوآبادیاں اور سلطنتیں قائم کر لیں۔
فرانس اور برطانیہ: فلسفہ نے تیزی کے ساتھ سماجی اور سیاسی مسائل کو قومی خطوط پر توجہ کا مرکز بنایا۔ برطانیہ میں جہاں پہلے ہی ایک انقلاب آ کر جا چکا تھا، تجربیت پسندی ڈیوڈ ہیوم کے کام میں معراج حاصل کر چکی تھی۔ اس دوران نئی ’’افادیت پسندی‘‘ نے سیاسی فلسفہ پر غلبہ پا لیا۔ اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب نے روشن خیالی، جمہوریت اور جدید شہری حقوق کے لیے خوب اعانت کی۔ البتہ فرانس میں صورت حال ذرا کم مستحکم تھی۔
رینے ڈیکارٹ کی عقلیت پسندی نے فلسفیوں کی ایک نئی نسل کو راستہ دیا۔ یہ انقلابی سیاسی فلسفی نئی سائنسی سوچ مقبول بنانے کا ذریعہ بنے۔ ان میں ادبی طنزنگار وولٹیئر اور انسائیکلوپیڈیا کا مرتب ڈینس ڈائیڈ یراٹ شامل تھے۔ لیکن سب سے بڑا انقلابی ژاں ژاک روسو تھا۔ سوسائٹی کے لیے اس کی بصیرت آزادی، مساوات اور اخوت کے اصولوں کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اسی نے 1789ء میں انقلاب فرانس کا شعلہ بھڑکانے میں اعانت کی اور انقلابی مفکرین کو تحریک دی۔ روسو سمجھتا تھا کہ تہذیب لوگوں پر فاسد اثرات ڈالتی ہے حالانکہ لوگ جبلی طورپر اچھے ہوتے ہیں۔ اس کی سوچ کے اسی حصے نے رومانیت کے لیے فضا ہموار کی اور تحریک ابھاری۔
رومانیت کے دور میں یورپ کا لٹریچر، پینٹنگ اور موسیقی فطرت کے قریب ہو گئے۔ یہ سب کچھ روشن خیالی کی مادہ پرست شہری تمکنت کے برعکس تھا۔ غالباً کلیدی فرق وہ انداز تھا جس میں رومانیت پسند عقل کی بجائے جذبات اور وجدان کی قدر کرتے تھے۔ اس تحریک نے انیسویں صدی تک پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں رکھا۔
جرمن مثالیت پسندی: جرمن فلسفہ نے انیسویں صدی کے دوران غلبہ پایا اور یہ عمانوایل کانٹ کی بدولت ممکن ہوا۔ اس کے مثالیت پسند (آئیڈیل ازم) فلسفہ نے فلسفیانہ سوچ کا دھارا یکسر تبدیل کر دیا۔ اس کے فلسفہ کا دعویٰ تھا کہ ہم کبھی بھی ایسی چیزوں کے بارے میں کوئی چیز نہیں جان سکتے جو ہماری ذات سے ہٹ کر پائی جاتی ہے۔ اگرچہ وہ ہیوم اور روسو سے محض چند برس چھوٹا تھا لیکن کانٹ کا تعلق بہر حال اگلی نسل سے تھا اس نے اپنا کام ان کی وفات کے بعد کیا۔
کانٹ کے پیروکاروں میں فشے، شیلنگ اور ہیگل شامل تھے۔ یہ سب مل کر جرمن ’’مثالیت پسند‘‘ کے طور پر جانے گئے۔ لیکن شوپن ہار کو بھی اسی صف میں شامل کیا گیا۔ اس کی کانٹ کے فلسفہ کی مخصوص تعبیر میں مشرقی فلسفہ کے خیالات مدغم تھے۔ ہیگل سخت گیر ’’مثالیت پسند‘‘ تھا۔ اس کے پیروکار کارل مارکس نے خوبصورتی کے ساتھ جرمن فلسفیانہ طریقوں، فرانسیسی انقلابی سیاسی فلسفہ اور برطانوی معاشی نظریہ کو اکٹھا کر دیا۔
فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر کمیونسٹ مینی فسٹو لکھنے کے بعد ا س نے داس کیپٹل لکھی۔ اس کا یہ کام قابل بحث ہے اور تاریخ کا سب سے اثر آفریں کام مانا جاتا ہے۔ اس کی موت کے چند عشروں بعد دنیا کے متعدد ممالک نے اس کے پیش کردہ اصولوں کے تحت انقلابی ریاستیں قائم ہوئیں۔ اس دوران ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں، جس نے برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کر لی تھی، جمہوری بنیادوں اور روشن خیالی کے اصولوں پر امریکی کلچر فروغ پایا۔ یہ یورپ سے لاتعلق تھا۔ اس کلچر نے تیزی سے فروغ پایا۔ رومانیت نے انیسویں صدی کے اواخر میں فلسفہ کی ایک نئی شاخ پیدا کی جس کو ’’عملیت پسندی‘‘ کہتے ہیں اور جو سچ کی نوعیت کی پڑتال کرتی ہے۔ یہ فلسفہ نئی صدی کے کلچر سے مطابقت رکھتا تھا جس میں عملی فائدے کو مقدم مانا گیا تھا۔
تحریر: مارکوس ویک