لاہور: (روزنامہ دنیا) شیراز کا شمار خوبصورت اور تاریخی شہروں میں ہوتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ ایران کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ شیراز ایک موسمی دریا ’’رودخانہ خشک‘‘ کے کنارے آباد ہے۔ یہ سلطنتِ فارس کے قدیم ترین شہروں میں سے ہے اور اسے تجارتی مرکز بنے ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے۔
اس شہر کا قدیم ترین حوالہ 2 ہزار سال قبل مسیح کی مٹی کی تختیاں ہیں، جن پر اس کا نام کندا ہے۔ شہر کے نام کا اولین ذکر جس تختی پر درج ہے وہ 1970ء میں اس وقت ملی جب اینٹیں بنانے کے لیے زمین کھودی جا رہی تھی۔ وہاں اس کا نام ’’چیراشز‘‘ درج ہے۔ فارسی کے دو معروف شاعر حافظ شیرازی اور سعدی شیرازی کا تعلق اس شہر سے تھا اور وہ یہیں دفن ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شیراز چار ہزار سال قدیم ہے۔ مسلمانوں کے زیرنگیں آنے کے بعد 693ء میں اسے صوبائی دارالحکومت کا درجہ دیا گیا۔ عرب اقتدار کے بعد شیراز کی اہمیت بڑھی۔ دسویں اور گیارہویں صدی کی آل بویہ بادشاہت نے اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس دور میں یہاں مساجد، محل اور ایک لائبریری تعمیر ہوئی۔
منگولوں کی آمد سے قبل یہاں سلجوقی اور خوارزمی اقتدار میں رہے۔ خوش قسمتی سے حملہ آور منگولوں نے خلاف روایت اسے تہ و بالا نہ کیا۔ اس کی بڑی وجہ مقامی حاکم کی چنگیز خان کو خراج کی ادائیگی اور پیغام امن تھا۔ تیرہویں صدی میں شیراز علم و فن کا ایک بہت بڑا مرکز بن گیا۔ اسی وجہ سے اسے علم کا گھر بھی کہا جانے لگا۔ چودھویں صدی میں یہاں کی آبادی 60 ہزار تھی جو دو صدیوں بعد دو لاکھ ہو گئی۔ سولہویں صدی کے اوائل میں یہ صفویوں کے کنٹرول میں آیا۔ صفویوں کے زوال کے بعد شہر ایک مشکل دور سے گزرا اور افغانیوں نے یہاں حملے کیے۔ نادر شاہ کے خلاف یہاں کے شہریوں کی بغاوت کی وجہ سے کئی ماہ تک اس کا محاصرہ کیا گیا۔ نادر شاہ کی موت کے وقت شہر کی متعدد عمارتیں تباہ اور آبادی خاصی کم ہو چکی تھی۔
اٹھارہویں صدی میں زند سلطنت کے حاکم محمد کریم خان زند کے دور میں اس کے اچھے دن دوبارہ شروع ہوئے۔ اس نے 1762ء میں اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس نے 12 ہزار سے زائد مزدوروں کو شہر کے اندر ایک شاہی علاقے کی تعمیر پر لگایا جس میں قلعے، انتظامی عمارات، مسجد اور ایک بازار شامل تھا۔ اس نے یہاں نہری اور نکاسی کا نظام بنایا اور شہر کی فصیلوں کی مرمت کی۔ قاجار سلطنت کے قیام کے بعد ایک بار پھر شیراز پر برا وقت آیا، اس کے قلعے کو تہس نہس کیا گیا اور تہران کو دارالحکومت بنا لیا گیا۔ اس کے باوجود تجارتی راہ پر ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت برقرار رہی اور یہ صوبائی دارالحکومت رہا۔ ماضی قریب میں پہلویوں کے دور میں شیراز میں سعدی اور حافظ کے مزار تعمیر ہوئے۔ انقلاب ایران کے بعد اگرچہ اس کا شمار ملک کے صنعتی، مذہبی اور سٹریٹجک شہروں میں نہیں ہوتا، تاہم یہ ایک انتظامی مرکز ہے اور پھل پھول رہا ہے۔
ترجمہ: رضوان عطا