اوسلو: (دنیا نیوز) امن کا نوبل انعام مشترکہ طورپر عراق کی نادیہ مراد اور کانگو کے گائنا کالوجسٹ ڈینس موکویج Denis Mukwegeکو دے دیا گیا۔
نادیہ مراد کا تعلق عراق سے ہے جو خواتین اور پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کررہی ہیں،انہیں 2014 ءکو عراقی شہر مؤصل میں شدت پسند تنظیم داعش نے قیدی بنالیا تھا۔ جمہوریہ کانگو سے تعلق رکھنے والے گائناکالوجسٹ ڈینس مُو کویج نے بوکاوو نا می علاقے میں ایک ہسپتال بنا یا تھا جہاں زیادتی کی شکارخواتین کا اعلاج کیا جا تا ہے اور انہیں گہرے صدمے سے نکلنے میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔
نادیہ مراد کون ہیں؟
نادیہ مراد کم عمری میں نوبل انعام حاصل کرنے والی دوسری شخصیت بن گئیں۔نادیہ مراد عراق کے یزیدی کرد قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں، 2003 میں امریکا کی جانب سے عراق پر حملے کے وقت ان کے خاندان کے کچھ افراد مارے گئے، وہ اس وقت انتہائی کم عمر تھیں۔جب نادیہ مراد کی عمر 19 برس تھی، تب دہشت گرد تنظیم داعش نے ان کے گاؤں پر حملہ کرکے 600 افراد کو قتل کردیا، جن میں سے ان کے بھائی اور دیگر اہل خانہ بھی شامل تھے۔
اسی حملے کے دوران نادیہ مراد سمیت دیگر متعدد نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے جنسی کاروبار کے لیے استعمال کیا گیا۔نادیہ مراد کم سے کم 3 سال تک داعش سمیت دیگر جنگجو گروپوں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جنسی کاروبار کے تحت فروخت ہوتی اور ریپ کا نشانہ بنتی رہیں۔بعد ازاں نادیہ مراد 2015 میں کسی طریقے سے داعش کے قبضے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئیں۔
فروری 2015 میں نادیہ مراد کو اقوام متحدہ (یو این) کے اجلاس میں بلایا گیا، جہاں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں کی لرزہ خیز داستان سنائی، وہ اس وقت اقوام متحدہ کی جذبہ خیر سگالی کی سفیر بھی ہیں۔نادیہ مراد کا کہنا تھا کہ ان سمیت سیکڑوں نوجوان لڑکیوں کو وحشی جنگجو ریپ کا نشانہ بناتے سمیت ان پر بدترین تشدد کرتے رہے، جنگجو لڑکیوں کے جسموں کو سگریٹ سے جلانے سمیت دیگر طرح سے اذیتیں دیتے رہے۔
نادیہ مراد اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں اور لڑکیوں کے اغواء، ریپ اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور استحصال سے متعلق کام کرنے میں مصروف ہیں، انہوں نے ‘نادیہ انیشیٹو’ نامی سماجی تنظیم بھی قائم کر رکھی ہے۔
ڈینس مُو کویج کا تعارف:
نادیہ مراد کے ساتھ نوبل انعام کے حقدار دیے جانے والے کانگو کے 63 سالہ سماجی کارکن ڈینس میکویج پسماندہ ملک میں تشدد، جنگ اور خواتین کے استحصال جیسے جرائم کی روکتھام کے لیے کوشاں ہیں۔ڈینس میکویج نے حکومت کی توسط سے 1991 میں ایک ایسے ہسپتال کو بنایا جو خصوصی طور پر گینگ ریپ اور جنسی تشدد کی شکار خواتین کو بہتر اور جلد علاج کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ڈینس میکویج نے اسی ہسپتال میں کانگو میں دوسری خانہ جنگی یعنی 1998 کے دوران باغیوں اور جنگجو کی جانب سے گینگ ریپ، جنسی تشدد اور استحصال کی شکار ہونے والی ہزاروں خواتین کا علاج کیا۔
وہ اس وقت بھی خواتین کے خلاف جنسی تشدد، استحصال اور ریپ کی روکتھام کے لیے کام کر رہے ہیں، انہیں نوبل انعام سے قبل بھی متعدد ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔