خون کی ہولی کھیلنے والے برینٹن ٹارنٹ کو سزائے موت کیوں نہیں ہو گی؟

Last Updated On 18 March,2019 05:13 pm

کرائسٹ چرچ: (ویب ڈیسک) نیوزی لینڈ میں امن وامان کی صورتحال کو دنیا بھرمیں سراہا جا رہا تھا کہ اچانک 28 سالہ دہشتگرد جو کہ سفید فام نسل کا پیروکار ہے اس نے کرائسٹ چرچ کی ایک مسجد میں حملہ کردیا۔ حملہ آور نے بغیر کسی خوف وخطر بڑے آرام سے گاڑی میں آیا اور اپنی لوڈڈ گن سے مسجد میں جا کر نمازیوں پر فائرنگ شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں 50 سے زائد مسلمان شہید اور 50 کے قریب زخمی ہوگئے۔

 پولیس نے موقع پر جا کر ہی حملہ آور کو گرفتار کرلیا۔ حملے ملزم برینٹن کی ایک کزن ڈونا کاکس کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے خواہش کا اظہار کیاہے کہ برینٹن کو کم ازکم سزائے موت ہونی چاہیے۔ برینٹن نے ہمارے معزز خاندان کو بری طرح بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے برینٹن سے شدید نفرت ہے، بلکہ مجھے برینٹن کی رشتہ دار ہونے پر بہت زیادہ افسوس اور دکھ ہے۔

برینٹن کے متعدد رشتہ داروں نے واقعے کی شدید مذمت بھی کی ہے۔ واضح رہے حملے کے بعد برینٹن کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔ ملزم کو عدالت نے تفتیش کیلئے ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے رکھا ہے۔ ملزم پر متعدد افراد کو قتل کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔تاہم مزید تفتیش کے بعد امکان ہے کہ ملزم پر مزید سخت دفعات لگائی جا سکتی ہیں۔


یہ بات حیران کن ہے کہ نیوزی لینڈ میں قتل کی سزا صرف 10 سال کی قید ہے جس کے بعد ملزم کو پے رول پر رہا کر دیا جاتا ہے تاہم اس کیس میں ملزم کو ساری عمر کے لیے سلاخوں کے پیچھے رکھے جاتے کا امکان ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

 قانونی ماہرین کے مطابق 28 سالہ آسٹریلوی شہری پر اس قدر سنگین چارجز ہیں کہ برینٹن کو دی جانے والی عمر قید کی سزا جنوبی بحرالکاہل میں 1961ء میں سزائے موت کے خاتمے کے بعد کسی جج کی جانب سے دی جانے والی سب سے بڑی سزا ہو گی۔

لیکن کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ وزیراعظم نیوزی لینڈ جیسنڈا آرڈن کی جانب سے اس قتل عام کو دہشتگردی کا واقعہ قرار دئے جانے کے باوجود عین ممکن ہے کہ برینٹن دہشتگردی کی دفعات عائد ہونے سے بچ جائے۔ کرمنل وکیل سائمن کولن کا کہنا ہے کہ فی الوقت برینٹن کو پے رول کے بغیر عمر قید کی سزا سنائے جانے کا قوی امکان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ برینٹن کی یہ سزا عبرتناک ہو گی۔

نیوزی لینڈ میں اب تک سب سے لمبی عمر قید کی سزا 2001ء میں سنائی گئی گئی جہاں تہرے قتل کے مجرم ولیم بیل کو کم از کم تیس سال قید کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 15 مارچ کو مساجد میں کی جانے والی دہشتگردی کے مرکزی ملزم کو 16 مارچ کی صبح کرائسٹ چرچ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے اس کا 5 اپریل تک ریمانڈ منظور کر لیا تھا۔

 یاد رہے کہ 50 نمازیوں کو شہید کرنے سے قبل اس دہشتگرد نے فیس بک  پر The Great Replacement کے عنوان سے75 صفحات پر مشتمل ایک بیان پوسٹ کیا۔ اس بیان میں کہاں اس نے مسلمانوں اور پناہ گزینوں کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کا اظہار کیا وہیں مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے توقع ظاہر کی اگر اس کے ہاتھوں کچھ مسلمان مارے جاتے ہیں تو اس پراسے زیادہ سے زیادہ 27 سال قید کی سزا ہوگی۔ رہائی کے بعد اسے امن کا نوبل انعام دیا جائے گا۔ اس نے اشارۃ خود کو جنوبی افریقا کے نسل پرستانہ نظام کے خلاف جدو جہد کرنے والے ہیرو نیلسن مینڈیلا کے ساتھ تشبیہ دی۔ وہ بھی 27 سال قید رہے اور رہائی کے بعد انہیں نوبل امن انعام دیا گیا تھا۔

اپنے بیان میں آسٹریلوی دہشت گرد نے لکھا ہے کہ اس نے ناروے کے انتہا پسند Anders Behring Breivik بھی رابطہ کیا۔ غالبا ٹرنٹن کا کا اس کے ساتھ رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا ہوگا۔ اینڈرس بیرنگ نے بھی 1500 صفحات پر مشتمل ایک طویل بیان پوسٹ کیا جس کے بعد اس نے ناروے کی تاریخ میں بدترین قتل عام کا ارتکاب کیا تھا۔

حملے میں جاں بحق خاتون کے شوہر نے قاتل کو معاف کردیا

 نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملے کے دوران شہید ہونے والی خاتون کے شوہر نے قاتل کو معاف کرنے کا اعلان کردیا۔ خاتون اپنے شوہر کی جان بچاتے ہوئے جاں بحق ہوگئی تھی۔

فرید احمد نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے قاتل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اس سے کہنا چاہتا ہوں کہ بطور انسان میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ ایک سوال کہ کیا وہ 28 سالہ قاتل کو معاف کردیں گے کے جواب میں ان کا کہنا تھا یقیناً وہ ایسا ہی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم چیز معاف کرنا، رحم، محبت اور دوسروں کا خیال کرنا اور مثبت سوچ ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں دہشت گرد حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں خواتین وبچوں سمیت 49 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے تھے۔مرکزی حملہ آور کی شناخت 28 سالہ برینٹن ٹیرنٹ کے نام سے ہوئی ہے اور وہ آسٹریلوی شہری ہے جس کی تصدیق آسٹریلوی حکومت نے کردی۔