لاہور: (اندراجیت رائے / دی انڈیپنڈنٹ) بھارتی حکومت نے اپنے خیال میں مسئلہ کشمیر حل کرتے ہو ئے آئین کے آرٹیکل370 کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت 1947 میں الحاق کے بعد سے کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ ناقدین کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل تو دور کی بات آئینی شق کے خاتمے سے کشمیر بھارت کے دوسرے حصوں سے مزید کٹ کر رہ جائے گا۔ حقیقت میں جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بی جے پی حکومت نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا ہے۔
بھارتی حکومت کے اقدام سے بھارت کا کشمیر پر دعویٰ کمزور ہوگا، کشمیریوں میں اشتعال پھیلے گا اور پہلے سے شورش کے شکار علاقے میں مزید کشیدگی پھیلے گی۔ انقلابی سیاسی اقدام سے کہیں دور آرٹیکل 370 کا خاتمہ ایک کھلے دروازے سے زور لگا کر گزرنے کے مترادف ہے۔ 1947 میں الحاق کے بعد سے وعدوں کے باوجود ہر بھارتی حکومت نے جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت مسلسل اور آہستہ آہستہ ختم کی۔ اپنی اصل شکل میں اس آرٹیکل کے تحت دفاع، خارجہ امور اور کرنسی کو چھوڑ کر ریاست کو مکمل خود مختاری حاصل تھی۔ نئی دہلی نے عملی طور پر اداروں کی خود مختاری کو کم کیا اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی عمل میں مداخلت کی، یہاں تک کہ اتحادی سیاستدانوں کے حق میں انتخابی دھاندلی کروائی گئی۔
نریندرمودی کی قیادت میں منتخب سیاستدانوں کی گرفتاری بہت خوفناک عمل ہے جو نہرو اور اندراگاندھی کے دور حکومت میں سیاستدانوں کی بار بار کی گرفتاریوں سے ملتا جلتا ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں سے کشمیری اچھی طرح واقف ہیں۔ کشمیر کی کسی خصوصی حیثیت نے کبھی نئی دہلی میں بھارتی حکومتوں کو کشمیر میں مرضی کے مطابق مداخلت سے نہیں روکا۔ جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے سیاسی وعدوں کا کھوکھلا پن ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔ آرٹیکل 370 ختم کر کے بی جے پی نے جموں اور کشمیر کے بھارت کیساتھ الحاق کی آئینی بنیاد کو کمزور کیا ہے۔ ایسا قومی اتحاد کے نام پر کیا گیا جو ایک ظالمانہ اقدام ہے۔
آرٹیکل 370 ختم ہونے سے بھارت کیخلاف معاندانہ رویے میں شدت آئے گی۔ نئے قانون کے تحت جموں اور کشمیر کو یونین کا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ یونین کے علاقے کے طور پر یہ امکان ہے کہ اس کا نظام نئی دہلی سے براہ راست چلایا جائے گا اور دوسری بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں اس کی قانون ساز اسمبلی کو کم اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس صورتحال نے جموں اور کشمیر کے لوگوں کو بھارتی حکومت کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور وہ رکاوٹ ختم ہو گئی ہے جو سیاسی عہدے کیلئے آپس میں مقابلہ کرنیوالے ریاستی سیاستدان اب تک قائم کرتے آئے ہیں۔ اب عام کشمیریوں کی آنکھیں مزید کھل سکتی ہیں اور ممکن ہے کہ وہ اس بھارتی فوج کیخلاف ردعمل کا مظاہرہ کریں جسے قابض فوج خیال کیا جاتا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ ہم تشدد اور لوگوں کی تکالیف میں اضافہ دیکھیں جن کا علاقے کی بہت سی برادریوں نے 1989 سے سامنا کیا ہے۔
بھارت کے پاکستان کیساتھ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ایٹمی اسلحے سے لیس دونوں ملک 1947 میں آزادی کے بعد کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پاکستان کشمیر پر بھارتی دعویٰ تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اب ممکن ہے کہ پاکستان اس دعوے کو کمزور کرنے کیلئے سفارتی اور نیم فوجی اقدامات میں اضافہ کر دے۔ ایسا ہوا تو علاقے میں مزید عدم استحکام پھیلے گا اور بی جے پی کی انتخابی فتح اسے مہنگی پڑ سکتی ہے۔