مقبوضہ کشمیر: سفارتی محاذ پر حکومت کا امتحان شروع

Last Updated On 08 August,2019 09:33 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر پر پیدا شدہ صورتحال، سلامتی کونسل میں اٹھانے کے ساتھ ساتھ دو طرفہ تجارتی معاہدوں پر بھی نظر ثانی ہوئی، اس کے ساتھ ہی رائے عامہ کو متحرک بنانے کیلئے یوم آزادی کو یوم یکجہتی کشمیر اور 15 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منانے جیسے بڑے فیصلوں کا اعلان کیا گیا۔ مذکورہ اعلانات اور اقدامات سے ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ اسلام آباد میں سفارتی سطح پر دباؤ بڑھانے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ پر دنیا کو اپنے تحفظات اور ناراضگی سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

فیصلوں کا اعلان بتا رہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی میں کیا معاملات ڈسکس ہوئے۔ حقائق کا کس سطح تک جائزہ لیا گیا اور نئے لائحہ عمل کی تیاری کس جذبے اور ولولے کے تحت ہوئی۔ اچھا ہوتا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں ہونے والے بڑے فیصلوں کا اعلان پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے کیا جاتا تا کہ دنیا کو اس کا مؤثر پیغام جاتا کہ قوم کی تائید و حمایت ان فیصلوں کو حاصل ہے اور حکومت، فوج اور قوم اپنی سلامتی، مفادات اور ترجیحات کیلئے آخری حد تک جائے گی۔ بنیادی فیصلہ سلامتی کونسل میں مسئلہ اٹھانے کا ہے۔ جس کیلئے کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی آج جمعرات کو چین کے دورہ پر جا رہے ہیں۔ چین وہ عظیم ملک ہے جو ہر مشکل صورتحال میں پاکستان کے ساتھ کاندھا لگا کر کھڑا ہوا لیکن کشمیری خصوصی حیثیت کے خاتمہ پر اس کا بیان لداخ کے حوالے سے اہم تھا کیونکہ وہ اس میں خود متاثرہ ہے جبکہ اس سے قبل امریکا کی جانب سے اس کی قومی سلامتی اور افغان پالیسی پر پاکستان کو ٹارگٹ کرنے اور برا بھلا کہنے کے جواب میں پاکستان سے پہلے چین کا جواب آیا اور چین نے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔

یہ چین ہی تھا جس نے مسعود اظہر کے مسئلہ پر قراردادوں کو ویٹو کیا اور اب بھی سلامتی کونسل کے اجلاس بلانے میں چین کا کردار ہی اہم ہوگا جس کیلئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چین جا رہے ہیں اور چین سے اپنا روایتی کردار ادا کرنے کی اپیل کریں گے۔ چیف آف آرمی سٹاف سمیت مسلح افواج نے ہمیشہ چین کی اہمیت اور حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ امریکہ کی محبت اور ثالثی کی لالی پوپ میں ہم اتنے مدہوش ہو گئے کہ چین جیسے عظیم دوست کو نظر انداز کر گئے، اب بھی اگر چین کی ضرورت پڑی تو چین مایوس نہیں کرے گا اور یہی چین کا کریڈٹ اور امریکا اور چین کا فرق ہے۔ نئی پیدا شدہ صورتحال میں اصل محاذ سفارتی ہی ہے جس پر پاکستان کو ڈلیور کرنا ہوگا۔ دنیا کو باور کرانا پڑے گا کہ بھارت کا یہ اقدام خطہ کو عدم استحکام سے دو چار کرے گا۔ پاکستان کشمیر پر اپنے روایتی اور قومی مؤقف سے ذرا برابر بھی پیچھے ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اگر دنیا بھارت کا ہاتھ نہیں روکتی تو دو نیوکلیئر پاورز کے درمیان محاذ آرائی اور تناؤ کی کیفیت اچھے نتائج کا باعث نہیں بنے گی، لہٰذا سفارتی محاذ پر یہ حکومت کا بڑا امتحان ہے کہ آیا وہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے میں کامیاب رہتی ہے ! اپنا کیس کس طرح پیش کرتی ہے کیونکہ اب تک کی صورتحال میں کوئی اچھے نتائج دیکھنے میں نہیں آ رہے۔ لہٰذا مذکورہ صورتحال پر مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے پہلے اندرونی محاذ پر یکسوئی اختیار کی جائے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گالم گلوچ، الزام تراشی کی جنگ پر سیز فائر کا اعلان کیا جائے اور 14 اگست کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر اگر حکومت اور اپوزیشن قیادت متحد ہو کر کشمیر کاز اور کشمیری عوام کی جدوجہد کی تائید کرے تو یقیناً اس دن کے مقاصد پورے ہو سکیں گے۔

15 اگست کو یوم سیاہ پاکستان میں نئی بات ہوگی لیکن یہ روایت کشمیریوں نے مقبوضہ کشمیر میں ہمیشہ سے شروع کر رکھی ہے وہ یوم آزادی پاکستان کے ساتھ مناتے ہیں سبز ہلالی جھنڈا لہراتے ہیں اور یوم سیاہ پر بھارت کے تسلط سے نجات کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کے بڑے فیصلوں، سفارتی محاذ پر حکومتی اقدامات کے ساتھ اگر قوم نے ملک گیر پیمانے پر چودہ اگست کو بھرپور انداز میں یوم یکجہتی کشمیر منایا اور 15 اگست کو بھارت کی پرزور مذمت اور اپنی نفرت کا اظہار کر دیا تو پھر دنیا کیلئے یہ پیغام ہوگا کہ پاکستان کشمیر کاز سے رتی بھر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں کو بھی 14 اگست اور15 اگست کے حوالے سے ہدایات جاری کی جائیں۔ ادھرکشمیر پر پیدا شدہ صورتحال پر پاکستان کی اپوزیشن پارلیمنٹ میں اتحاد و یکجہتی کی باتوں کے ساتھ ساتھ تحفظات بھی ظاہر کرتی نظر آ رہی ہے، دوسری جانب بھارت کی اپوزیشن بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس اقدام کو خود بھارت کیلئے خطرناک قرار دے رہی ہے۔ بھارتی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ 15 اگست کی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریر پاکستان کیلئے کسی بڑے پیغام اور جلتی پر تیل کا کام کرے گی۔ جبکہ ادھر پاکستان میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے یہی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ یوم آزادی کے موقع پر امن کی بات کے ساتھ بھارت کے جارحانہ طرز عمل کے جواب میں ممکنہ اقدامات کا عزم ظاہر کریں گے اور دنیا کو باور کرائیں گے کہ بھارت کا ہاتھ نہ پکڑا گیا اور کشمیر اور کشمیریوں پر ظلم و ستم بند نہ ہوا تو پھر ہم بھی اپنی سلامتی و بقا کیلئے آخری آپشن تک جائیں گے۔ لہٰذا 14 اگست اور 15 اگست کو علاقائی صورتحال کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر کو فوری طور پر پاکستان چھوڑنے کے اعلانات کو ایک سنجیدہ رد عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ مہذب دنیا میں ایسا سنگین صورتحال پر ہوتا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے روز ہی سفارتی تعلقات کے خاتمہ کا اعلان کر دیا جاتا تو یقیناً عالمی محاذ پر اس فیصلے کی تپش محسوس ہوتی۔ البتہ دو طرفہ تجارتی عمل کے خاتمہ کا بڑا نقصان بھارت کو ہوگا۔
 

Advertisement