لاہور: (دنیا نیوز) معروف تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کی اپوزیشن کی کوشش ایک بے مقصد کارروائی تھی۔ سنجرانی نے آئین و قانون سے کونسی غداری کی تھی کہ ان کو ہٹانا لازم ہو گیا تھا ؟۔
پروگرام تھنک ٹینک میں میزبان عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس سے زیادہ تبدیلی اور کیا ہوسکتی ہے کہ صادق سنجرانی اپنے منصب پر برقرار ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ جن 14 ارکان نے تحریک کے حق میں ووٹ نہیں ڈالے وہ کسی پرائمری سکول میں نہیں پڑھتے تھے۔ وہ سمجھدار لوگ ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار، روزنامہ دنیا کے گرو پ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے پاکستان کی سیاست کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آگیا۔ انھوں نے کہا کہ جب سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ ٹکٹ دیتے ہوئے ووٹ کی بجائے نوٹ کو ترجیح دے گی تو پھر یہی کچھ ہونا تھا، انھوں نے بتایا کہ گیم آخری 24 گھنٹے میں الٹی ہے۔ حکومت کا گریٹ پلان درست ثابت ہوا۔ حکومت کامیاب ضرور ہوئی لیکن وہ پوری طرح بے نقاب ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ 14 ارکان جو ادھر سے ادھر ہوئے، سینیٹ کے اگلے الیکشن میں بھی سینیٹرز ضرور بنیں گے۔ انھوں نے کشمیر پر امریکی صدر کے بیان پر کہا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس معاملے میں سنجیدہ ہے صدر ٹرمپ نے جس دن سے ثالثی کی بات کی ہے بھارت کو اس سے زیادہ کبھی مایوس نہیں دیکھا گیا۔ اب ہمیں دبائو برقرار رکھنا چاہئے۔
ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ سنجرانی کی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کے خلاف ممبران کی مزاحمت موجود ہے ہماری سیاسی جماعتیں لیڈروں کی جاگیر ہیں۔ لیڈر شپ اپنے ممبران سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ آنکھیں اور کان بند رکھیں گے اور لیڈرشپ کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے اس وجہ سے بھی کچھ ارکان نے آزادانہ فیصلہ کیا۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اندر عدم اعتماد کی تحریک پر بہت اختلاف رائے موجود تھا اس لئے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ صادق سنجرانی بچ جائیں گے ، انھوں نے کہا کہ شہباز شریف کو اب یہ اعلان کرنا چاہئے کہ جن سینیٹرز نے تحریک کے حق میں ووٹ نہیں دیئے وہ ان کو پارٹی سے نکال دیں گے۔