سرینگر: (ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی کریک ڈاؤن، مسلح مزاحمت کو پروان چڑھانے لگا۔ نوجوان نسل ’’ون سلوشن، گن سلوشن ‘‘ کے نعرے لگانے لگی۔
قطری خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں دباؤ عوام کو مسلح مزاحمت کی جانب راغب کر رہی ہے، مقبوضہ وادی میں مظاہرے میں "ون سلوشن، گن سلوشن "کے نعرے لگائے گئے جبکہ بھارتی فوج کی جانب سے ہراسمنٹ اور ظلم کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق آنسو گیس کے شیلز اور پیلٹ گنز کے استعمال کے نتیجے میں سینکڑوں افراد زخمی ہو گئے ہیں، بھارتی فوج کی جاسوسی کی آفر مسترد کرنے پر رشید نامی جوان کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
24 سالہ کشمیری شہری رشید جو تعلیم یافتہ ہیں اور وادی کے علاقے اونتی پورہ کے رہائشی ہیں کا کہنا تھا کہ 2 بھارتی فوجی میرے گھر آئے اور کہا کہ اگر میں جاسوسی کی آفر قبول نہیں کروں گا تو میرے خلاف مقدمہ قائم ہو گا، اگر مجھے ایسے ہی ہراساں کیا گیا تو تحفظ کے لیے بندوق اٹھا لوں گا۔ روزانہ بار بار مرنے سے ایک دفعہ مرنا ہی بہتر ہے۔
کشمیری جوان کا کہنا تھا کہ ترال نامی علاقے میں 12 سالہ نوجوان سمیت سینکڑوں افراد گرفتار ہیں، 12 سالہ بچے کو بھارتی فوج پر پتھراؤ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اگر ہم شہید برہان وانی کے راستے کا انتخاب کریں تو کم از اکم اپنی توہین کا بدلہ لے سکیں گے۔
عرب میڈیا کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے اب تک ایک بار ہی مزاحمت دیکھنے میں آئی ہے جب ایک پولیس اہلکار کو مجاہد نے ہلاک کیا تھا اور گیارہ گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد خود بھی شہید ہو گیا تھا۔
یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے لیکر اب تک بھارتی قابض سرکار نے ہزاروں کی تعداد میں مزید فوجیوں کو وادی میں تعینات کیا ہے۔
سرینگر سے 40 کلو میٹر دور علاقے ترال میں پولیس اہلکار نے عرب خبر رساں ادارے کو بتایا کہ تین ہفتوں کے دوران متعدد لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو ہمیں پریشان کر سکتے تھے، حراست میں لیے جانے والوں میں ایک بچہ بھی شامل ہے جس کی عمر 12 سال کے قریب ہے۔
ترال کے ایک رہائشی طارق ڈار کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس طرح کی حرکتیں نوجوانوں اور بچوں کو مزاحمت کی طرف گامزن کر رہی ہے۔ کیونکہ بھارتی فوجی جب نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہیں تو بنائ کچھ بتائے ان پر بدترین تشدد کرتے ہیں جس کی وجہ سے بغاوت کا عنصر نوجوانوں میں پایا جا رہا ہے۔
ترال کے ایک اور 18 سالہ نوجوان سمیر وادی کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے اور انٹر نیٹ، موبائل فون، لینڈ لائن سمیت دیگر سہولتیں بند ہونے کی وجہ سے مجھے بہت مشکلات ہیں اور دل آزاری ہو رہی ہے۔
2016ء میں شہید ہونے والے برہان وانی کے والد مظفر وانی کا الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میری بھارتی سرکار اور فوجیوں سے درخواست ہے کہ پر امن لہجہ اپنائیں بصورت دیگر یہ نوجوان ہتھیار اُٹھا سکتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اس وقت وادی میں بہت خاموشی ہے جو یہ طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کرفیو ختم ہونے کے بعد آتش فشاں پھٹ سکتا ہے۔