سرینگر: (دنیا نیوز) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم دوسرے ماہ میں داخل ہو گئے، کرفیو اور سخت پابندیوں کے باوجود قابض آرمی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں جبکہ مظاہرے کے دوران پیلٹ گنز لگنے سے فرسٹ ایئر کا طالبعلم شہید ہو گیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ وادی میں کرفیو دوسرے ماہ میں داخل ہو گیا ہے، حالات بتدریج خراب ہیں، سڑکوں پر فوج گشت کر رہی ہے جس کے بعد جنت نظیر چھاؤنی کا منظر پیش کر رہی ہے جبکہ قابض فوج کیخلاف مظاہرے کے دوران صورہ میں ایک نوجوان شہید ہو گیا۔ شہید ہونے والے نوجوان کا نام اسرار احمد خان ہے جو فرسٹ ایئر کا طالبعلم تھا، اسے پیلٹ گنز لگی تھی جس کی وجہ سے اُسے ہسپتال لایا گیا تاہم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جبری پابندیوں کے باعث انٹرنیٹ، موبائل سروس بند ہے، کاروبار، دکانیں اور تعلیمی ادارے بھی نہ کھل سکے، کئی علاقوں میں ہُوکا عالم ہے، مسلسل لاک ڈاؤں کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی قلت پیدا ہو گئی۔ نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے، 5 اگست سے اب تک 11 ہزار کشمیریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بھارتی فوج نے محرم کے جلوس نکالنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
دوسری طرف حریت رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کرفیو ہمارے عزم کو نہیں توڑ سکتا ایک دن نئی دہلی کو کشمیر میں ضرور شکست ہو گی۔ ہم آخری سانس تک بھارت کیخلاف لڑیں گے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق حریت رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بھارت ہمیں قتل کر سکتا ہے لیکن ہمارے نظریہ کو ختم نہیں کر سکتا، ہم ہر صورت آزادی حاصل کر کے رہیں گے چاہے اس کے لیے کتنی لمبی ہی کیوں نہ لڑائی لڑنی پڑے۔ ہمارے ساتھ ہمارا ربّ ہے۔
مظاہروں کے دوران حریت رہنماؤں نے بینرز اٹھا رکھے تھے، بھارتیو سنو تم صرف مجمع ہو، ہم دوبارہ کہتے ہیں تم صرف مجمع ہو، تم نے ہمیں ہرانے کے لیے ہر قسم کے ہتھیار استعمال کیے، تم ہمارے ہتھیاروں سے خوفزدہ ہو، ہمارے ہتھیار صرف پتھر ہیں۔
مظاہروں کے دوران بینر پر لکھا تھا کہ ہم تمہیں زندہ نہیں جانے دیں گے، ہم آپ کو مجبور کر دیں گے کہ یہاں سے بھاگ جاؤ، ہم حریت ہیں، ہم اپنے قوم اور ملک کے لیے دفاع کریں گے۔
اُدھر ڈھاکہ میں کشمیریوں کے حق میں ریلی نکالی گئی، مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کیخلاف انٹرنیشنل کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے، گجرات میں مسلمانوں کا قتل کرنے والا اور مقبوضہ کشمیر کے حالات خراب کرنے والا نریندر مودی ہے۔ مظاہرین نے ڈھاکہ کے پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا جس میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔
ایک شہری کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مقبوضہ کشمیر، گجرات کیساتھ ساتھ بنگلہ دیشیوں کو بھی قتل کر رہا ہے جو بھارتی سرحد کے قریب رہتے ہیں۔ ہمیں اس مظالم کیخلاف آواز اٹھانا ہوگی۔
دوسری طرف برطانوی شہری کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے وادی کا رابطہ دنیا کیساتھ منقطع ہے، میں نہیں جانتا میری بیوی زندہ ہے بھی یا نہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق برطانوی شہری جس کی 33 سال ہے اور نام عدیل ہے کا کہنا ہے کہ تین ہفتے ہو گئے ہیں میں اپنی بیوی سے رابطہ نہیں کر پا رہا، مجھے ایسا لگتا ہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔ میں جلد وہاں جانا چاہتا ہوں تاکہ اپنی بیوی سے مل سکوں۔ میرے پاس جانے کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود ہیں ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق عدیل نے 18ماہ قبل سرینگر کی ایک لڑکی کیساتھ شادی کی تھی اور اپنی بیوی کا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب میں نے آخری بار اپنی بیوی سے بات کی تو وہ اپنے گھر سے تین گھنٹے سے دور تھی۔ اس کے بعد سے وادی میں انٹرنیٹ، لینڈ لائن، مبائل سمیت تمام رابطے منقطع ہیں۔
میں نے برطانوی وزارت خارجہ سے اپیل کی ہے کہ میری مدد کریں، میں اپنی بیوی کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ میرے لیے یہ لمحات بہت قرب والے ہیں۔ میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں جب میں سنتا ہوں کہ بھارتی فوج نوجوانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ جس کا ذکر برطانوی سمیت عالمی میڈیا کر رہا ہے۔