سرینگر: (ویب ڈیسک) مقبوضہ وادی میں کرفیو برقرار ہے، مساجد پر تالے لگے ہیں، شہریوں کو مسلسل چھٹی بار نماز جمعہ کی ادائیگی نہیں کرنے دی گئی۔ کشتواڑ میں نامعلوم افراد نے رائفلز چھینے تو قابض انتظامیہ نے سخت کرفیو لگا دیا اور فورسز، اہلکاروں نے سرچ آپریشن شروع کر دیا، لوگ پابند سلاسل ہیں۔ کرفیو کے باعث وادی میں 3 ہزار 9 سو کروڑ (40 ارب بھارتی روپے) کا نقصان ہوچکا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق پوری وادی فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہے، اس کے باوجود شہریوں کی بڑی تعداد مظاہرے کر رہی ہے اور بھارت مخالف نعرے لگا رہے ہیں، 5 اگست کے بعد سے شہریوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی نہیں کرنے دی جا رہی، سرینگر کی مشہور جامعہ مسجد کو تالے لگے ہوئے ہیں جبکہ باقی دیگر مساجد میں بھی مسلسل 6 ویں جمعہ کی نماز ادا نہیں کرنے دی گئی۔
مقبوضہ کشمیر میں مسلسل چالیسویں روز بھی کرفیو برقرار ہے جس کے باعث زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، انٹرنیٹ، موبائل فون، لینڈ لائن سمیت دیگر سہولیات بھی مکمل طور پر بند ہیں۔ دکانیں، تعلیمی ادارے بند ہیں، ہسپتال ویرانی کے مناظر پیش کر رہے ہیں، ٹرانسپورٹرز بھی اپنی گاڑیاں باہر نہیں نکال رہے۔
اُدھر قابض بھارتی سرکار نے کشتوارڑ میں بھی کرفیو لگا دیا ہے، جہاں کچھ لوگوں نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی لیڈر کے سکیورٹی گارڈ سے رائفلز چھین لیے۔ نامعلوم افراد نے شیخ ناصر کے سکیورٹی گارڈ سے جیسے ہی رائفلز چھینے تو سکیورٹی اہلکاروں نے فوری طور پر علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا جس کے بعد بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار اور پولیس والے سرچ آپریشن میں مصروف ہو گئے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق سرینگر، بارہمولا، بانڈی پورہ، کپواڑہ، پلوامہ، شوپیاں، اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں زیادہ سختی کی گئی ہے، ان علاقوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد آزادی کے حق میں نعرے لگاتی ہیں جس کے بعد قابض سرکار نے خوف کے باعث مزید نفری تعینات کر دی ہے۔
دوسری طرف مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد کرفیو کے باعث 3 ہزار 9 سو کروڑ کا نقصان ہوچکا ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے صدر شیخ احسن احمد کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر تاجروں کو 100 کروڑ سے لیکر 120 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا سیاحت کی انڈسٹری بھی تباہ ہو گئی ہے جو سالانہ 1500 سے 2000 کروڑ روپے کما کر دیتی ہے، حالات ایسے ہی رہے تو اس کا رد عمل فوری طور پر نہیں آگے جا کر بہت خوفناک شکل میں آئے گا۔
وادی میں ٹریول ایجنسی چلانے والے ایک شہری تنویر احمد کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے لوگ سیاحت کے لیے وادی نہیں آ رہے، انٹر نیٹ بند ہے جس کی وجہ سے ہمارا بزنس بھی مکمل طور پر بند ہو کر رہ گیا ہے، صرف ایک ماہ کی وجہ سے مجھے بیس لاکھ سے زائد روپے کا نقصان ہو چکا ہے، مجھے لگتا ہے کہ حالات ایسے ہی رہے تو آئندہ ماہ مجھے 50 لاکھ روپے کے قریب نقصان اٹھانا پڑے گا جو میرے لیے ناقابل قبول ہے۔
ایک شہری کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے سے قبل میں روزانہ دو سے چار ہزار روپے کما لیتا تھا، اب میں صرف دو سو روپے کما رہا ہوں، یہاں کے حالات بہت خوفناک صورتحال اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں، کوئی بھی اس طرح کی صورتحال کے لیے تیار نہیں تھا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس کے علاوہ ہارٹی کلچرل، ٹریفک، کسان سمیت دیگر کاروبار بھی مکمل طور پر نقصان میں جا رہا ہے۔
دریں اثناء ہزاروں کی تعداد میں کشمیری شہریوں کو قید کر رکھا گیا ہے جہاں ان کو لیگل سہولیات بھی نہیں دی جا رہیں، چند ہفتے قبل گرفتار ہونے والے مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنما شاہ فیصل نے اپنی نظر بندی کو نئی دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، تاہم انہیں کوئی لیگل سہولیات نہیں مل رہیں۔